تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
صلی اللہ علیہ و سلم معہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم مدینہ منورہ میں داخل ہوئے‘۲؎ سیدنا عتاب بن اسید رضی اللہ عنہ سب سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے اسلام میں امیر ہو کر حج ادا کیا‘ اس سال مسلمانوں نے بھی حج ادا کیا‘ اور مشرکین نے بھی اپنے طریقے پر حج ادا کیا‘ نہ مشرکوں نے مسلمانوں سے کوئی تعرض کیا نہ مسلمانوں نے مشرکوں سے کچھ کہا‘ اس میل جول کا نتیجہ یہ ہوا کہ مشرکین کو مسلمانوں کے اعمال حسنہ اور اخلاق فاضلہ کے مطالعہ کرنے کا خوب موقعہ ملا‘ اور ان کی زبان پر بے اختیار مسلمانوں کی مدح و ستائش جاری ہو گئی۔ ۸ ھ کے متعلق ایک یہ قابل تذکرہ واقعہ رہ گیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب مکہ سے مدینہ کو روانہ ہوئے تو طائف کے سرداروں میں سے ایک سردار عروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ‘ جو محاصرہ طائف کے ایام میں طائف کے اندر نہ تھے‘ بلکہ کہیں باہر گئے ہوئے تھے اور محاصرہ اٹھ جانے کے بعد طائف میں آئے تھے‘ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے مکہ سے روانہ ہونے کی خبر سن کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پیچھے روانہ ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے مدینہ میں داخل ہونے سے پہلے ہی راستہ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر مشرف بہ اسلام ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا کہ مجھ کو اجازت دیجئے کہ میں واپس جا کر اپنی قوم میں اسلام کی تبلیغ کروں‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا‘ کہ تیری قوم کو اس بات کا غرور ہے کہ مسلمان ان کو فتح نہیں کر سکے‘ اگر تو ان کو اسلام کی دعوت دے گا تو وہ تجھ کو قتل کر دیں گے۔ سیدنا عروہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ میری قوم مجھ سے بہت محبت کرتی اور میری بات مانتی ہے‘ مجھ کو امید ہے کہ وہ کبھی میری مخالفت نہ کریں گے‘ ان کے اصرار پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اجازت دے دی۔ وہ طائف میں آئے‘ اور ایک بلند مقام پر کھڑے ہو کر اہل طائف کو اسلام کی دعوت دینی ۱؎ سیرت ابن ہشام ص ۵۲۹۔ ۲؎ سیرت ابن ہشام ص ۵۳۰۔ شروع کی‘اہل طائف نے اس بات کو سنتے ہی ان پر تیروں کی بارش شروع کر دی اور وہ شہید ہو گئے‘ دم نزع ان کے اہل خاندان نے پوچھا کہ تم اپنے خون کے بارے میں کیا کہتے ہو‘ ہم اس کا بدلہ کسی سے لیں یا نہ لیں‘ انہوں نے کہا کہ خدائے تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے مجھ کو شہادت کا مرتبہ عطا فرمایا‘ اب میری صرف یہ خواہش ہے کہ مجھ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ان رفیقوں کے پاس دفن کرنا جو یہاں ایام محاصرہ میں شہید ہو کر دفن ہو چکے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جب عروہ بن مسعود کی شہادت کا حال سنا توفرمایا کہ عروہ اپنی قوم میں ایسا ہی تھا جیسا صاحب یٰسین اپنی قوم میں۔۱؎ ’’اسی سال آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے صاحبزادے ابراہیم پیدا ہوئے‘ صاحبزادہ ابراہیم ماریہ قبطیہ کے بطن سے پیدا ہوئے تھے‘ اسی سال آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی صاحبزادی سیدنا زینب رضی اللہ عنھا نے انتقال فرمایا‘ اسی سال کے آخری ایام میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے لکڑی کا ممبر تیار کیا گیا جس پر کھڑے ہو کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے‘ اسی سال منذر بن ساوی حاکم بحرین کو جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا خط دیکھتے ہی مسلمان ہو گیا تھا‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم