تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
خود آ آ کر اور بعض بذریعہ و فود مسلمان ہوتے رہے‘ جنگ حنین میں صرف چار مسلمان شہید ہوئے تھے‘ لیکن طائف کے محاصرہ کی حالت میں بارہ مسلمان شہید ہوئے‘ اس محاصرہ میں بھی بہت بڑا فائدہ حاصل ہوا‘ کہ طائف کے نواحی قبائل مسلمان ہو گئے‘ طائف کی فتح کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسی وقت ضروری نہ سمجھ کر وہاں سے مراجعت کی اور مقام جعرانہ میں تشریف لا کر اسیران جنگ اور مال غنیمت کی تقسیم فرمائی۔ اسی جگہ قبائل ہوازن کی جانب سے ایک وفد آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو حلیمہ سعدیہ کا واسطہ دلا کر معافی کی درخواست کی‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تم نماز ظہر کے وقت جب سب مسلمان نماز کے لیے جمع ہوں گے میرے سامنے اپنی درخواست پیش کرنا‘ چنانچہ ایسا ہی ہوا‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وفد ہوازن سے فرمایا کہ تمہارے جس قدر قیدی میرے اور بنو عبدالمطلب کے حصہ میں ہیں‘ وہ سب آزاد سمجھو اور اپنے ساتھ لے جائو‘ یہ سن کر تمام مہاجر و انصار بولے‘ ماکان لنا فھولرسول اللہ(جو ہمارا حصہ ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا حصہ ہے)۔ یہ کہہ کر سب نے ہوازن کے تمام قیدیوں کو آزاد کر دیا‘ اس طرح تقریباً چھ ہزاری قیدی ذرا سی دیر میں آزاد کر دئیے گئے۔ انہیں قیدیوں میں شیما بنت حلیمہ سعدیہ کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بھی تھیں‘ انہوں نے جب کہا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی رضاعی بہن ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اس کا ثبوت کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ میری کمر میں تمہارے دانت کے نشان ہیں تم نے بچپن میں کاٹ لیا تھا‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا درست ہے‘ یہ کہہ کر فوراً اپنی چادر بچھا دی اور اس پر ان کو بٹھایا‘ پھر فرمایا کہ اگر تم میرے پاس رہنا پسند کرو تو میں تم کو عزت و احترام سے رکھوں گا‘ اگر اپنی قوم میں جانا چاہو تو تم کو اختیار ہے‘ انہوں نے دوسری بات کو پسند کیا‘ اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو بہت سا مال و متاع ‘ ایک لونڈی‘ ایک غلام اپنی ملک میں سے دے کر رخصت کیا‘ شیماء نے اس لونڈی اور غلام کا باہم نکاح کر دیا جس سے نسل چلی‘ اور سنا گیا ہے کہ آج تک وہ نسل باقی ہے۔۱؎ انصار کی والہانہ محبت رسول صلی اللہ علیہ و سلم آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مقام جعرانہ میں جب مال غنیمت تقسیم کیا تو مکہ والوںکو جو مولفۃ القلوب تھے زیادہ زیادہ رقمیں دیں اور بعض کو کئی گناہ ان کے حصہ سے زیادہ مال غنیمت ملا‘‘ مکہ والے چونکہ اکثر قریش یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اپنے رشتہ دار اور ہم وطن تھے اس لیے انصار کے بعض نوجوانوں میں ۱؎ سیرت ابن ہشام ص ۵۱۷ و ۵۱۸۔ چہ میگوئیاں ہونے لگیں‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے رشتہ داروں اور ہم وطنوں کو بلا استحقاق مال و دولت عطا کی اور ہم کو معمولی حصہ سے زیادہ کچھ نہ دیا‘ حالانکہ عطیات کے زیادہ مستحق تو ہم لوگ تھے۔ بہ بھنک اڑتی ہوئی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سمع مبارک تک بھی پہنچ گئی‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تمام انصار کو ایک جگہ جمع کیا‘ جب سب جمع ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سب کو مخاطب کر کے فرمایا۔: کہ کیا تم نے ایسا ایسا کہا