تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تہامہ کی وادیوں سے گذر کر وادی حنین میں پہنچا ‘ دشمنوں نے لشکر اسلام کے قریب پہنچنے کی خبر سنا کر وادی حنین کے دونوں جانب کمین گاہوں میں چھپ کر مسلمانوں کے لشکر کا انتظار کیا۔ مسلمان وادی کی شاخ در شاخ اور پیچیدہ گذر گاہوں میں ہو کر نشیب کی طرف اترنے لگے تھے‘ اور صبح کاذب کی تاریکی پھیلی ہوئی تھی کہ اچانک دشمنوں کی فوجوں نے کمین گاہوں سے نکل نکل کر تیر اندازی اور شدید حملے شروع کر دئیے‘ اس اچانک آپڑنے والی مصیبت اور بالکل غیر متوقع حملے کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان سراسیمہ ہو گئے‘ اور اہل مکہ کے دو ہزار آدمی سب سے پہلے حواس باختہ ہو کر بھاگے‘ ان ۱؎ سیرت ابن ہشام ص ۵۰۵ و ۵۰۶۔ ۲؎ سیرت ابن ہشام ص ۵۰۸۔ کو دیکھ کر مسلمان بھی جدھر جس کو موقع ملا منتشر ہونے لگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم وادی کے داہنی جانب تھے‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ ‘ سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ ‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ ‘ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ ‘ سیدنا فضیل بن عباس رضی اللہ عنہ ‘ ابوسفیان بن الحراث رضی اللہ عنہ اور ایک مختصر سی جماعت صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی رہ گئی‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے سفید خچر دلدل نامی پر سوار تھے‘ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ اس کی لگام تھامے ہوئے تھے‘ اس سخت پریشانی اور افرا تفری کی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم بلند آواز سے فرماتے تھے۔ اناالنبیلاکذباناابنعبدالمطلب۱؎ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس استقلال اور شجاعت نے کسی قدر مسلمانوں کی ہمت بندہائی‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اردگرد دشمن پوری طاقت سے حملہ آور تھے اور یہ مٹھی بھر آدمی ان سے لڑ رہے تھے‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کو جو بلند آواز تھے حکم دیا کہ مسلمانوں کو اس طرف بلائو‘ چنانچہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے ہر قبیلہ کا نام لے لے کر آواز دینی شروع کی کہ اس طرف آئو‘ اس آواز کو پہچان کر مسلمان اس طرح اس آواز کی طرف دوڑے جیسے گائے کے بچھڑے اپنی ماں کی آواز سن کر اس کی طرف دوڑتے ہیں‘ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے قریب صرف سو ہی آدمی پہنچ سکے باقی دشمنوں کے درمیان حائل ہو جانے سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم تک نہ پہنچ سکے اور وہیں سے لڑنے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اللہ اکبر کہہ کر دلدل کو دشمنوں کی طرف بڑھایا اور ان سو آدمیوں کے مختصر دستے نے ایسا سخت حملہ کیا کہ اپنے سامنے سے دشمنوں کو بھگا دیا اور ان کے آدمیوں کو گرفتار کرنا شروع کیا‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا نعرہ تکبیر سن کر اور دشمنوں پر حملہ آوری دیکھ کر مسلمانوں نے بھی ہر طرف سے سمٹ کر دشمنوں پر نعرہ تکبیر۲؎ کے ساتھ حملہ کیا اور ذرا سی دیر میںلڑائی کا نقشہ بدل گیا‘ دشمنوں کو کامل ہزیمت ہوئی۔۳؎ اس لڑائی میں مسلمانوں کو مشرکین اہل مکہ کے سبب جو شریک لشکر تھے ابتدا میں ہزیمت ہوئی ٰ۱؎ ’’میں نبی ہوں‘ اس میں کوئی (شک اور) جھوٹ نہیں۔ میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔‘‘