تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بعض کہتے تھے کہ گھر سے باہر نکل کر پاخانہ پھرنے کے لیے تو جا نہیں سکتے مگر قیصر و کسریٰ کے ملکوں کا خواب دیکھ رہے ہیں۔۱؎ غرض منافقوں کے طعنے رات کی اوس ‘ دن کی دھوپ ‘ بھوک‘ کفار کا مقابلہ‘ بنی قریظہ کا اندیشہ‘ منافقوں کا خطرہ‘ کفار کی کثرت‘ مسلمانوں کی قلت‘ ان تمام حالات میں مسلمانوں نے جس عزم و ہمت اور ثبات قدم کا نمونہ دکھایا اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ مسلمانوں نے جب ان کے سامنے ایسی تجویز پیش ہوئی کہ دب کر صلح کر لیں تو صاف انکار کر دیا۔ اس حالت میں بھی سعید روحیں کھینچ کھینچ کر آتی اور اسلام میں داخل ہوتی رہیں‘ چنانچہ ایک شخص نعیم بن مسعود بن عامر قبیلہ غطفان کے لشکر سے نکل کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کیا۔ انہوں نے مسلمان ہونے کے بعد عرض کیا کہ میں بنی قریظہ اور لشکر کفار میں پھوٹ ڈلوائے دیتا ہوں …چنانچہ وہ اول بنو قریظہ کے پاس گئے‘ پھر ابوسفیان کے پاس گئے اور ایسی باتیں کیں جس سے بنو قریظہ اور قریش دونوں نے ایک دوسرے سے اپنا اپنا اطمینان چاہا‘ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بنو قریظہ کفار کے حسب منشاء علانیہ کوئی جنگی حرکت سے باز رہے‘ نعیم رضی اللہ عنہ بن مسعود نے دونوں جگہ اپنے مسلمان ہونے کا اعلان نہیں کیا تھا‘ اس لیے ان کی باتیں طرفین کے لیے قابل توجہ ہوئیں۔۲؎ جب محاصرہ کو ستائیس روز گذر گئے تو ایک روز رات کو تیز و تند ہوا چلی‘ خیموں کی میخیں اکھڑ گئیں‘ چولہوں پر دیگچیاں گر گئیں۔ {فَاَرْسَلْنَا عَلَیْھِمْ رِیْحًا وَّ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْھَا} (الاحزاب : ۳۳/۹) ’’ہم نے ان پر ہوا بھیجی اورایک ایسا لشکر بھیجا جس کو تم نہیں دیکھ سکتے تھے۔‘‘ اس ہوا اور جھکڑنے بڑا کام کیا‘ جا بجا ڈیروں میں آگ گل ہو گئی‘ مشرکوں نے آگ کے بجھنے کو بدشگونی سمجھا اور راتوں رات اپنے ڈیرے خیمے اٹھا کر فرار ہو گئے۔ کفار کے فرار ہونے کی خبر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو خدائے تعالیٰ کی طرف سے دی گئی اسی وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدنا حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ کو خبر لانے کے لیے بھیجا‘ انہوں نے آ کر سنایا کہ کفار کا لشکر گاہ ۱؎ سیرت ابن ہشام ص ۴۱۵۔ ۲؎ اور ان میں پھوٹ پڑ گئی اور یہ بات مسلمانوں کے عین حق میں گئی … تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو : سیرت ابن ہشام ص ۴۱۸‘ ۴۱۹۔ خالی پڑا ہے اور وہ بھاگ گئے‘ ۱؎آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اب کفار قریش ہم پر کبھی حملہ آور نہ ہوں گے‘ مسلمان خوشی خوشی مدینے میں داخل ہوئے‘ یہ واقعہ ماہ ذیقعدہ ۵ ھ میں وقوع پذیر ہوا‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم جب کفار کے مقابلے پر مدینہ کے باہر خندق کے اس طرف قیام فرما تھے تو مدینہ میں ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو عامل بنا گئے تھے‘ مدینہ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے واپس آ کر بہت ہی تھوڑی دیر قیام فرمایا‘ اور ظہر کی نماز ادا فرما کر حکم دیا کہ عصر کی نماز یہاں کوئی آدمی نہ پڑھے بلکہ عصر کی نماز بنی قریظہ کے محلہ میں ادا کی جائے‘ بعض صحابہ رضی اللہ عنھم نے ابھی ہتھیار بھی نہیں کھولے تھے‘ یہ حکم سنتے ہی اسی طرح بنو قریظہ کی طرف روانہ ہو گئے۔۲؎ بنو قریظہ کی بدعہدی کا حشر سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ جو غزوہ خندق کے زمانہ میں بنو قریظہ کو سمجھا