تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
۱؎ اور وہ بہت بڑا پتھر یا چٹان ریزہ ریزہ ہو گئی۔ صحیحبخاریکتابالمغازیحدیث۴۱۰۱ ۲؎ سیرت ابن ہشام ص ۴۱۳۔ اسی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو خبر ملی کہ بنی قریظہ کے سردار کعب بن اسید نے بھی مسلمانوں کے خلاف حملہ آوروں سے معاہدہ کر لیا ہے۔ اور حیی بن اخطب بنی قریظہ کے قلعہ میں دوستانہ داخل ہو کر ان کو آمادہ قتال کر رہا ہے‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تحقیق حال اور نیز ہدایت و نصیحت کے لیے سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ اور سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کو بنی قریظہ کے پاس بھیجا اور ان دونوں بزرگوں نے ہر چند ان کو سمجھایا لیکن کوئی کامیابی حاصل نہ ہوئی‘ بنی قریظہ نے نہایت ترش روئی سے جواب دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو ہم نہیں جانتے‘ اور ان سے ہمارا کوئی معاہدہ ہے۔۱؎ لشکر کفار جب خندق کے سامنے آیا تو خندق کو دیکھ کر متعجب اور حیران ہوا‘ کیونکہ اس سے پیشتر عربوں نے اس قسم کی خندق نہ دیکھی تھی‘ کفار کے ٹڈی دل نے مدینہ کا محاصرہ کرلیا‘ یہ حملہ کفار کی طاقت و شوکت کا انتہائی مظاہرہ اور اسلام کے مقابلہ میں کفر کی گویا سب سے بڑی کوشش تھی‘ مسلمانوں نے اپنی عورتوں اور بچوں کو مدینہ کی ایک خاص گڑھی میں حفاظت کی غرض سے جمع کر دیا تھا‘ یہودیوں کی طرف سے جو گویا مدینے کے اندر ہی تھے حملہ کا ہر وقت خوف تھا‘ ادھر منافقین سے بھی جو مسلمانوں میں ملے جلے رہتے تھے سخت خطرہ تھا‘ کفار کی طرف سے کئی مرتبہ خندق کے عبور کرنے کی کوشش ہوئی مگر وہ کامیاب نہ ہو سکے‘ ایک مرتبہ دو تین کافر ایک مقام سے جہاں خندق کی چوڑائی کسی قدر کم تھی گھوڑا کودا کر اندر آگئے‘ ان میں ایک کافر عمروبن عبد دو ہزار سوار کے برابر سمجھا جاتا تھا اور ملک عرب کا مشہور بہادر تھا اس کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے قتل کر دیا‘ باقی بھاگ گئے۲؎ صبح سے شام تک تیروں کے ذریعہ لڑائی ہوتی رہی‘ دشمنوں کا محاصرہ نہایت سخت تھا‘ ان کو باہر سے ہر قسم کی امداد پہنچ رہی تھی‘ نہ سامان رسد کی ان کے لیے کمی تھی‘ نہ ان کی جمعیت میں کوئی کمی ہوئی تھی‘ مسلمانوں کی حالت یہ تھی کہ سامان رسد کہیں سے میسر نہ آ سکتا تھا‘ فاقوں پر فاقے جاتے تھے‘ ایک مرتبہ ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے بھوک کی شکایت کی اور کرتا اٹھا کر دکھایا کہ پیٹ پر پتھر باندھ رکھا ہے تاکہ فاقہ کی وجہ سے کمر جھکنے نہ پائے‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنا کرتا اٹھا کر دکھایا تو دو پتھر پیٹ پر باندھے ہوئے تھے۔۳؎ رات کو چونکہ شبخون کا خوف اور خندق کی حفاظت کرنا ضروری تھا لہذا رات بھر سب کو میدان میں بیدار رہنا اور دن بھر دشمن کا مقابلہ کرنا پڑتا تھا‘ مصعب بن قشیر ایک منافق نے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم شام ‘ ۱؎ سیرت ابن ہشام ص ۴۱۴۔ ۲؎ سیرت ابن ہشام ص ۴۱۶ و ۴۱۷۔ ۳؎ یہ روایت تلاش بسیار کے باوجود نہیں مل سکی۔ البتہ صحیحبخاریکتابالمغازیحدیث۱۔۴۱ میں ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پیٹ پر ایک پتھر بندھا ہوا تھا…! ایران اور یمن کے ملکوں کی حکومت اپنے دوستوں کو دے رہے ہیں‘ لیکن ہم تو دیکھتے ہیں کہ وہ مدینہ کے اندر بھی اب نہیں رہ سکتے۔