تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مدینہ کے قریب پہنچ کر تمام حملہ آور فوج کی تعداد بروایت مختلف کم سے کم دس ہزار اور زیادہ سے زیادہ چوبیس ہزار تھی‘ اس لشکر اعظم میں ساڑھے چار ہزار اونٹ اور تین سو گھوڑے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو جب اس لشکر گراں کے حملہ آور ہونے کا حال معلوم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجلس مشورت منعقد کی‘ یہ رائے قرار پائی کہ مدینہ کے اندر رہ کر ہی مدافعت کی جائے‘ سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا کہ حملہ آور فوج سے محفوظ رہنے کے لیے محصور فوج کے گرد خندق کھودی جائے‘ عرب لوگ اس خندق کھودنے کی ترکیب سے ناواقف تھے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدنا سلمانی فارسی رضی اللہ عنہ کی اس تجویز کو پسند کیا‘ ایک طرف پہاڑیاں تھیں ایک طرف مدینہ منورہ کے مکانات کی دیواریں فصیل کی قائمقامی کر رہی تھیں‘ جو سمت کھلی ہوئی تھی اور جس طرف سے دشمن کا حملہ ہو سکتا تھا اس طرف خندق کی کھدائی کا کام شروع کر دیا گیا‘ سلسلہ کوہ اور خندق کے درمیان ایک بیضوی شکل کا میدان بن گیا‘ یہی گویا مسلمانوں کا قلعہ تھا‘ اس کے وسط رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا خیمہ تھا‘ خندق پانچ گز چوڑی اور پانچ گز گہری کھودی گئی‘ خندق کی کل لمبائی کے مساوی حصے کر کے دس دس آدمیوں کو ایک ایک حصہ کھودنے کے لیے دیا گیا‘ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بھی ایک حصہ کی کھدائی میں شامل اور خندق کھودنے میں مصروف تھے‘ اس خندق میں ایک جگہ بڑا اور سخت پتھر آ گیا‘ سب زور آزمائی کر چکے اور پتھر نہ ٹوٹا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ خندق کو اس جگہ سے پھیر کر اور دوسری طرف موڑ کر کھود لینے کی اجازت دی جائے‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم جس جگہ خندق کھودنے میں مصروف تھے وہاں سے اپنا پھائوڑا لے کر چلے‘ اس پتھر والے حصے میں پہنچ کر اور خندق میں اتر کر اپنا پھائوڑا یا کدال اس زور سے مارا کہ پتھر میں شگاف پڑ گیا‘۱؎ ساتھ ہی ایک روشنی نکلی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اللہ اکبر کہا‘ سب صحابہ رضی اللہ عنھم نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تقلید میں نعرہ اللہ اکبر بلند کیا‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ مجھ کو ملک شام کی کنجیاں دی گئیں‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دوسری ضرب اس پتھر پر لگائی‘ جس سے وہ اور بھی زیادہ پھٹ گیا‘ اس ضرب سے بھی روشنی نکلی اور اسی طرح نعرہ اللہ اکبر بلند ہوا‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا مجھ کو ملک فارس کی کنجیاں دی گئیں‘ تیسی ضرب میں پتھر ریزہ ریزہ ہو گیا اور اسی طرح روشنی نکلی‘ اللہ اکبر کا نعرہ بلند ہوا‘ اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ مجھ کو یمن کی کنجیاں دی گئیں‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا مجھے جبرئیل امین نے خبر دی ہے کہ یہ تمام ملک تمہاری امت کے قبضے میں آ جائیں گے۔۲؎ اس جگہ غور کرنا چاہیے کہ چوبیس ہزار کفار کے جرار لشکر کے مقابلہ میں مٹی بھر مسلمان اپنی حفاظت اور جان بچانے کی تدبیروں میں مصروف ہیں‘ تمام ملک عرب دشمنی پر تلا ہوا اور خون کا پیاسا ہے‘ بظاہر بربادی پیش نظر ہے …لیکن ایران‘ روم‘ اور یمن کے ملکوں کی سلطنت و حکومت کی خوش خبری سنائی جا رہی ہے‘ یہ کام اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کا نہیں ہو سکتا اور اللہ تعالیٰ کے سواکوئی ایسی خبر نہیں دے سکتا۔