تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پائوں میں ڈال دیا۔ ماہ صفر ۴ ھ قریش مکہ نے عضل وقارہ کے سات آدمیوں کو براہ فریب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں بھیجا‘ انہوں نے مدینے پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا کہ میری ساری قوم نے اسلام میں داخل ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہمارے ساتھ سکھلانے والے معلمین بھیج دیجئے کہ وہ ہم کو اسلام سکھائیں۔ ۱؎ زاد المعاد و سیرت ابن ہشام بحوالہ الرحیق المختوم‘ ص ۳۹۵۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اصحاب کرام رضی اللہ عنھم میں سے دس اور بقول ابن خلدون چھ آدمیوں کو ہمراہ کر دیا۔ مرثد بن ابی مرثد غنوی یا عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ بن ابی الافلح کو اس بزرگ جماعت کا سردار مقرر فرمایا‘ جب یہ لوگ سفر کرتے ہوئے قبیلہ ہذیل کے ایک تالاب موسومہ ’’رجیع‘‘ پر پہنچے تو ان غداروں نے قبیلہ ہذیل کے دو سو نوجوانوں کو بلا لیا‘ یہ قبیلہ بھی پہلے ہی سے شریک سازش تھا‘ مسلمانوں نے جب اپنے آپ کو کفار کے گروہ میں محصور پایا تو فوراً جرئات کر کے قریب کی پہاڑی پر چڑھ گئے اور ان کا مقابلہ شروع کیا‘ کفار نے ان دس آدمیوں کو آسانی سے گرفتار کرنا دشوار سمجھ کر دھوکے سے کام لینا چاہا اور کہا کہ ہم تو صرف تم کو آزماتے تھے کہ اگر اہل مکہ نے مقابلہ کیا تو تم ان کے مقابلہ میں ٹھہر سکو گے یا نہیں‘ مسلمانوں نے ان کے قول و قرار پر اعتبار نہ کیا‘ بالآخر مسلمانوں کے دو آدمیوں کو زندہ گرفتار کرسکے باقی کفار سے لڑ کر شہید ہو گئے۔ ان دونوں گرفتار ہونے والے بزرگوں کے نام خبیب رضی اللہ عنہ بن عدی اور زید بن الدثنہ رضی اللہ عنہ تھے‘ ان دونوں کو وہ مکہ میں لے گئے‘ قریش نے گرفتار کرنے والوں کو کافی صلہ دے کر دونوں کو حارث بن عامر کے گھر میں چند روز بھوکا پیا سا قید رکھا۔ ایک روز حارث کا چھوٹاسا بچہ چھری لیے ہوئے کھیلتا ہوا سیدنا خبیب رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچ گیا‘ انہوں نے بچے کو اپنے زانو پر بٹھا لیا اور چھری لے کر الگ رکھ دی۔ بچے کی ماں نے جب دیکھا کہ بچہ قیدی کے پاس پہنچ گیا ہے اور تیز چھری بھی وہیں موجود ہے تو بے اختیار چیخ مار کر رونے لگی‘ سیدنا خبیب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تمہارے بچے کو ہرگز قتل نہ کروں گا‘ تم مطمئن رہو۔۱؎ چند روز کے بعد سیدنا زید رضی اللہ عنہ کو صفوان بن امیہ نے لیا اور اپنے باپ کے (جو بدر میں قتل ہوا تھا) خون کا عوض لینے کے لیے اپنے غلام فسطاس کے سپرد کیا کہ حدود حرم سے باہر لے جا کر قتل کرے‘ وہ سیدنا زید رضی اللہ عنہ کو باہر لے گیا‘ قریش اور اہل مکہ اس قتل کا تماشہ دیکھنے کے لیے گروہ در گروہ آ کر جمع ہو گئے‘ تماشائیوں میں سے ابوسفیان نے آگے بڑھ کر کہا زید رضی اللہ عنہ اب تم بھوکے پیاسے قتل ہوتے ہو‘ کیا تم اس بات کو پسند کرتے ہو کہ اس وقت تم اپنے اہل و عیال میں آرام سے ہوتے اور ہم بجائے تمہارے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی (نعوذ باللہ) گردن مارتے؟ سیدنا زید رضی اللہ عنہ نے نہایت سختی اور بہادری سے جواب دیا کہ واللہ ہم ہرگز پسند نہ کریں گے کہ ہم اپنے اہل و عیال میں ہوں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ایک کانٹا بھی چبے‘ ابوسفیان نے کہا واللہ میں نے آج تک کوئی کسی کا دوست ایسا نہیں دیکھا جیسے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے دوست ہیں۔ اس کے بعد سیدنا زید رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا گیا۔