تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ایک شخص حارث بن سوید نامی منافق مسلمانوں کے ہمراہ میدان جنگ تک گیا‘ جب لڑائی شروع ہوئی تو مجذر بن زیاد رضی اللہ عنہ اور قیس بن رضی اللہ عنہ زید و مسلمانوں کو شہید کر کے مکہ کی طرف بھاگ گیا‘ چند روز کے بعد مدینے میں واپس آیا اور گرفتار ہو کر سیدنا عثمان عفان رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے قتل ہوا۔۲؎ اس لڑائی میں سب سے بڑا فائدہ مسلمانوں کو یہ ہوا کہ وہ منافقوں کو خوب پہچان سکے‘ اور دوست و دشمن میں تمیز کرنے کے مواقع ان کو مل گئے‘ مدینہ پہنچ کر اگلے دن یعنی شوال ۳ ھ بروز یک شنبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم دیا کہ جو لوگ کل لڑائی میں شریک تھے صرف وہی کفار سے مقابلہ کرنے کے لیے نکلیں‘ کسی نئے شخص کو یعنی ایسے شخص کو ہمراہ چلنے کی اجازت نہ تھی جو جنگ احد میں شریک نہ تھا‘ صرف ایک شخص جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمراہ چلنے کی اجازت دے دی تھی‘ چنانچہ تمام صحابہ رضی اللہ عنھم جو شریک جنگ احد تھے‘ حتیٰ کہ زخمی بھی‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ مدینے سے نکلے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مدینہ سے روانہ ہو کر آٹھ میل چل کر مقام حمراء الاسد میں مقام کیا‘ اور تین دن تک آپ صلی اللہ علیہ و سلم حمراء الاسد میں مقیم رہے‘ اتفاقاً معبد بن ابی معبد خزاعی جو مکہ کو جا رہا تھا‘ اس طرف سے گذرا۔ ادھر مقام روحا میں پہنچ کر مشرکین نے سوچا کہ اس لڑائی میں ہم کو مسلمانوں کے مقابلہ میں کوئی فتح نہیں ہوئی‘زیادہ سے زیادہ یہ کہ برابر کا مقابلہ رہا‘ کیونکہ اگر ہم یہ کہیں گے کہ فتح مند واپس آ رہے ہیں تو لوگ پوچھیں گے کہ تمہارے ساتھ مسلمان قیدی کہاں ہیں؟ پھر پوچھیں گے کہ مال غنیمت کہاں ہے؟ جب کہ کوئی قیدی ہمارے پاس نہیں‘ مال غنیمت بھی نہیں اور ولید بن عاصی‘ ابوامیہ بن حذیفہ ۱؎ سیرت ابن ہشام ص ۳۸۱۔ ۲؎ سیرت ابن ہشام ص ۳۸۱۔ ہشام بن ابی حذیفہ‘ ابی بن خلف‘ عبداللہ بن حمید اسدی‘ طلحہ بن ابی طلحہ‘ ابوسعید بن ابوطلحہ‘ مسافع و جلاسی پسران طلحہ‘ ارطاۃ بن شرجیل وغیرہ سترہ ایسے شخص جو مشہور سردارن قریش میں تھے‘ اور پانچ چھ دوسرے بہادر قتل کروا آئے تو ہم کون فتح مند خیال کرے گا‘ جب کہ ہمارے ہاتھ سے صرف حمزہ رضی اللہ عنہ و معصب رضی اللہ عنہ وغیرہ تین چار قابل تذکرہ آدمی مقتول ہو سکے‘ یہ سوچ کر سب کی رائے بدلی‘ از سر نو پھر مارنے مرنے پر اظہار مستعدی کیا گیا۔ اور ابوسفیان اس تمام لشکر کو لے کر مقام روحا سے واپسی پر آمادہ ہوا کہ مدینہ پر حملہ آور ہو۔ اسی حالت میں معبد بن ابی معبد مقام روحا میں پہنچا۔ اس نے ابوسفیان کو خبر سنائی کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ سے نکل کر تمہارے تعاقب میں روانہ ہو چکے ہیں‘ مجھ کو ان کا لشکر حمراء الاسد میں ملا تھا اورو ہ غالباً بہت جلد تم تک پہنچ جانے والے ہیں۔ یہ خبر سنتے ہی لشکر کفار بدحواس ہو کر وہاں سے سیدھا مکہ کی جانب روانہ ہوا اور مکہ پہنچ کر اس کے دم میں دم آیا‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو جب یہ تحقیق ہو گئی کہ کفار بدحواسی سے مکہ کیطرف بھاگے چلے جا رہے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم واپس مدینہ میں تشریف لے آئے‘ یہ سفر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا غزوہ حمراء الاسد کے نام سے مشہور ہے۱؎ اس کے ذریعہ کفار کے دلوں میں مسلمانوں کا رعب قائم ہوا‘ اور مدینہ ان کے حملہ سے محفوظ رہا۔