تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
نیچے کا ایک دانت شہید ہو گیا‘ اسی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا پائے مبارک ایک گڑھے میں جا پڑا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم گر گئے‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ہاتھ پکڑا اور سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ اور سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو باہر نکالا‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے گرد جب صحابہ کرام کی ایک مختصر جماعت فراہم ہو گئی اور لڑائی شدت سے جاری ہوئی تو کفار کے حملوں میںسستی پیدا ہونے لگی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے کفار کو مار مار کر ہٹا دیا‘ اس حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پہاڑ کی طرف متوجہ ہونے کا حکم دیا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی جماعت کے ساتھ پہاڑ کی ایک بلندی پر چڑھ گئے‘ مدعا اس سے یہ تھا کہ کفار کے نرغہ سے نکل کر پہاڑ کو پشت پر لے لیں اور لڑائی کا ایک محاذ قائم ہو جائے‘ چنانچہ یہ تدبیر یعنی لڑائی کے لیے بہترین مقام کو حاصل کرنا بہت مفید ثابت ہوا‘ مسلمانوں کے بلند مقام پر چڑھ جانے کے بعد ابوسفیان نے بھی پہاڑ پر چڑھنا چاہا اور وہ کفار کی ایک جماعت کو لے کر دوسرے راستے سے زیادہ بلند مقام پر پہنچنا چاہتا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ ان کو اوپر چڑھنے سے باز رکھو‘ سیدنا عمر فاروق ہمراہیوں کے ساتھ اس طرف روانہ ہوئے اور ابوسفیان کی جماعت کو نیچے دھکیل دیا۔۔۔ اب مسلمانوں کی جمعیت جلد جلد بڑھنے لگی‘ مسلمان جو منتشر ہو گئے تھے پہاڑ کی اس بلندی پر آ آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے گرد جمع ہونے لگے‘ کفار کو اب یہ جرات نہ ہوئی کہ مسلمانوں پر حملہ آور ہوں‘ مگر ایک کافر ابی بن خلف جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے قتل کا پہلے سے ارادہ کر کے آیا تھا اپنے گھوڑے پر سوار رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر حملہ آور ہوا‘ اس کو آتے ہوئے دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اس کو آنے دو‘ وہ قریب پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر حملہ کرنا ہی چاہتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک صحابی حارث بن صمہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے نیزہ لے کر اس پر وار کیا‘ نیزہ کی انی اس کی ہنسلی یعنی گردن کے نیچے کی ہڈی میں لگی‘ یہ زخم بہت معمولی سا معلوم ہوتا تھا لیکن وہ زخم کھا کر نہایت بدحواسی کے ساتھ بھاگا‘ وہ جب حملہ آور ہوا تھا تو یہ شور مچاتا ہوا چلا تھا کہ میں محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو ضرور قتل کر کے آئوں گا‘ اس بدحواسی اور سراسمیگی کے ساتھ جب بھاگ کر گیا تو مشرکین نے اس کا مذاق اڑایا چنانچہ اسی زخم کی وجہ سے وہ واپسی میں مکہ پہنچنے سے پہلے راستہ ہی مر گیا اور یہی ایک شخص ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھ سے قتل ہوا۔ ابوسفیان بلند آواز سے کہا ’’افی القوم محمد‘‘ (کیا تم لوگوں میں محمد صلی اللہ علیہ و سلم ہیں؟) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے فرمایا اس کو جواب نہ دو‘ پھر اس نے پوچھا کیا تم میں ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ ہیں؟) اس طرف سے کچھ جواب نہ ملا‘ پھر اس نے پوچھا کیاتم میں عمرابن الخطاب رضی اللہ عنہ ہیں؟ اس پر بھی سکوت رہا‘ پھر وہ بولا معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب قتل ہو گئے۔‘‘ اس پر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو تاب نہ رہی فوراً چلا کر بولے ’’اے دشمن اللہ تعالیٰ یہ سب زندہ ہیں اور تو رسوا ہو گا یہ سن کر کچھ متعجب سا ہوا اور فخریہ لہجے میں کہنے لگا اعلھبلاعلھبل(ہبل کی جے ہبل کی جے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مسلمانوں سے کہا اس کو جواب دو کہ اللٰہ اعلیٰ واجل (اللہ برتر و بزرگ ہے) ابوسفیان نے