تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
رضی اللہ عنہ کی بیوی حمنہ بنت حجش رضی اللہ عنھا آتی ہوئی ملیں‘ ان کو ان کے ماموں سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر سنائی گئی‘ انہوں نے انا للہ پڑھا‘ پھر ان کے بھائی عبداللہ بن حجش رضی اللہ عنہ کی شہادت کا حال سنایا انہوں نے انا للہ پڑھ کر دعاء مغفرت کی‘ پھر ان کے شوہر مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر دی گئی یہ خبر سن کر وہ بے تاب ہو گئیں‘ اور رو پڑیں‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ کیفیت دیکھ کر فرمایا کہ عورت کو شوہر کی محبت زیادہ ہوتی ہے۴؎…انصار کے قبیلہ کی ایک خاتون کے باپ‘ بھائی اور شوہر تینوں شہید ہو گئے تھے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی شہادت کی افواہ سن کر مدینہ سے چلیں‘ راستے میںکسی نے کہا کہ تمہارا باپ شہید ہو گیا‘ انہوں نے فرمایا یہ بتائو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تو بخیریت ہیں؟ پھر ان سے کہا گیا کہ تمہارا بھائی بھی شہید ہو گیا‘ انہوں نے یہ سن کر بھی یہی فرمایا کہ مجھ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا حال سنائو‘ پھر ان سے کہا گیا کہ تمہارا شوہر بھی شہید ہو گیا‘ انہوں نے یہ سن کر بھی یہی فرمایا کہ مجھ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا حال سنائو‘ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بھی قریب پہنچ گئے تھے‘ ان کو بتایا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تو وہ تشریف لا رہے ہیں‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا چہرہ مبارک دیکھ کر اس خاتون نے فرمایا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم سلامت ہیں تو پھر تمام مصائب ہیچ ہیں۔۵؎ اس لڑائی میں جو مدینے میں صرف تین چار میل کے فاصلہ پر ہوئی تھی عہد نامے کے موافق یہود مدینہ کو مسلمانوں کے ساتھ مل کر لڑنا اور کفار مکہ کا مقابلہ کرنا چاہیے تھا۔ عبداللہ بن ابی کے واپس آنے اور جمعیت کے کم ہو جانے کے بعد بعض صحابہ رضی اللہ عنھم نے رسول ۱؎ سیرت ابن ہشام ص ۳۸۶۔ ۲؎ صحیحبخاریکتابالمغازیحدیث۴۰۸۲۔صحیحمسلمکتابالجنائزبابفیکفنالمیت۔ ۳؎ صحیحبخاریکتابالجنائزحدیث۱۳۴۷۔ ۴؎ سیرت ابن ہشام ص ۳۸۶ و ۳۸۷۔ ۵؎ سیرت ابن ہشام ص ۳۸۷۔ اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ عرض بھی کیا تھا کہ یہودیوںسے مدد طلب کرنی چاہیے‘ مگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہودیوں سے مدد مانگنی مناسب نہیں سمجھی‘ چنانچہ یہودی مزے سے اپنے گھروں میں بیٹھے اوراس لڑائی کے نتیجے کا انتظار دیکھتے رہے۔ یہودیوں میں سے ایک شخص مخیریق نامی نے اپنی قوم سے کہا کہ تم پر محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی مدد فرض ہے‘ انہوں نے کہا کہ آج شنبہ کا دن ہے ہم نہیں لڑ سکتے‘ مخیریق نے کہا کہ یہ نبی اور کفار کا مقابلہ ہے شنبہ مانع نہیں ہو سکتا‘ چنانچہ اس نے تلوار اٹھائی اور سیدھا میدان جنگ میں پہنچا‘ جاتے ہوئے یہ اعلان کر گیا کہ اگر میں مارا جائوں تو میرا مال محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے ہے جو چاہیں کریں ان سے کچھ تعرض نہ کرنا۔ لڑائی میں شریک ہوا اور مقتول ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو جب یہ حال معلوم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ وہ بہترین یہود تھا۔۱؎