تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
عمرو کا مقابلہ اتفاقاً۴؎ ابوجہل سے ہو گیا‘ ابوجہل خود اور زرہ وغیرہ پہنے ہوئے ۱؎ تاریخ ابن ہشام ص ۳۰۷۔ ۱؎ تاریخ ابن ہشام ص ۳۰۷ و ۳۰۸۔ ۲؎ صحیحمسلم۔کتابالامارۃبابثبوتالجنۃللشھید۔ ۳؎ یہ مقابلہ اتفاقاً نہیں تھا بلکہ معاذ رضی اللہ عنہ تو ابوجہل کی تلاش میں تھے۔ انہیں اس بات کا بہت غصہ تھا کہ ابوجہل‘ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا جانی دشمن ہے اور ان کو گالیاں بکتا ہے۔ انہوں نے میدان جنگ میں عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے ابوجہل کے بارے میں پوچھا۔ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا کہ بھتیجے! اس کو کیا کہو گے؟ معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اسے قتل کروں گا یا خود شہید ہو جائوں گا۔ ملاحظہ ہو : صحیحبخاریکتابفرضالخمسحدیث۳۱۴۱۔صحیحمسلمکتابالجھادباباستحقاقالقاتلسلبالقتیل۔ غرق آہن تھا‘ سیدنا معاذبن عمرو رضی اللہ عنہ نے موقع پا کر اور اس کے پائوں کو زرہ سے خالی دیکھ کر تلوار کا ایک ہاتھ اس کی نصف پنڈلی کے قریب ایسا مارا کہ اس کا پائوں کٹ کر الگ جا پڑا‘ ابوجہل کے بیٹے عکرمہ بن ابوجہل نے باپ کو زخمی دیکھ کرمعاذ بن عمرو رضی اللہ عنہ پر حملہ کیا اور تلوار کا ایسا ہاتھ مارا کہ سیدنا معاذ بن عمرو رضی اللہ عنہ کا بایاں ہاتھ مونڈھے کے قریب سے کٹ کر لٹک گیا‘ صرف ایک تسمہ لگا ہوا باقی رہا‘ سیدنا معاذ بن عمرو رضی اللہ عنہ اسی طرح تمام دن لڑتے رہے‘ لٹکے ہوئے ہاتھ نے جب بہت دق کیا تو اسے پائوں کے نیچے دبا کرزور سے جھٹکا دے کر الگ کر دیا‘ ۱؎اس کے بعد انصار کے ایک دوسرے نو عمر معوذ رضی اللہ عنہ بن عفراء ابوجہل کے قریب پہنچے اور تلوار کی ایک ایسی ضرب لگائی کہ وہ زخمی ہو کر نیم بسمل ہو گیا‘ ۲؎جب کفار میدان خالی چھوڑ کر مسلمانوں کے سامنے سے بھاگ گئے اور لشکر اسلام کو فتح حاصل ہو گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم دیا کہ ابوجہل کی نسبت تحقیق کرو کہ اس کی لاش میدان میں موجود ہے یا نہیں‘ یہ حکم پاتے ہی سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ مقتولین کی لاشیں دیکھنے کو چلے‘ ابوجہل کو دیکھا کہ نیم مردہ پڑا ہے‘ ۳؎ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اس کے سینے پر چڑھ بیٹھے اور کہا کہ اے اللہ کے دشمن دیکھ تجھ کو اللہ تعالیٰ نے کیسا ذلیل کیا‘ ابوجہل نے پوچھا۴؎ لڑائی کا نتیجہ کیا ہوا‘ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مسلمانوں کو فتح اور کفار کو ہزمیت ہوئی‘ یہ کہہ کر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جب اس کا سر کاٹنے لگے تو اس نے کہا کہ میری گردن مونڈھے سے ملا کر کاٹنا تاکہ میرا سر دوسرے کٹے ہوئے سروں میں بڑا معلوم ہو اوریہ سمجھا جائے کہ سردار کا سر ہے‘۵؎ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اس کا سر کاٹ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں لائے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پائوں میں ڈال دیا‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ابوجہل کا سر دیکھ کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا‘ اس لڑائی میں کل چودہ صحابی رضی اللہ عنہ شہید ہوئے جن میں چھ مہاجرین اور آٹھ انصار تھے‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے معرکہ جنگ سے فارغ ہو کر مسلمان شہداء کو دفن کیا‘ مشرکین کی لاشوں کو ایک بڑے گڑھے یا کنوئیں ۱؎ اللہ اکبر! اس ذوق و شوق جہاد کے کیا کہنے! جب تک مسلمانوں میں ایسا ایمانی جذبہ موجود رہا‘ وہ کفار و مشرکین پر غالب رہے اور جب ان کے ایمان میں کمزوری آتی گئی تو وہ مغلوب ہونا شروع ہو گئے۔ ۲؎