تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
صحیحبخاریکتابفرضالخمسحدیث۳۱۴۱۔صحیحمسلمکتابالجھادباباستحقاقالقاتلسلبالقتیل۔ ۳؎ صحیحبخاریکتابالمغازیحدیث۳۹۶۱تا۳۹۶۲۔ ۴؎ ابوجہل کو جب معلوم ہوا کہ مجھے دو نوجوانوں (معاذ اور معوذ رضی اللہ عنہ ) نے مارا ہے (اس وقت وہ قریب المرگ تھا) تو اس نے افسوس کیا کہ کاش! مجھے ایک کسان کے سوا کسی اور نے مارا ہوتا۔ صحیحبخاریکتابالمغازیحدیث۴۰۲۰ ۵؎ افسوس! ابوجہل بدبخت کا یہی غرور اور فخر و تکبر اسے لے ڈوبا اور وہ راہی جہنم ہوا‘ فَاعْتَبِرُوْا یَا اُوْلِی الْاَبْصَارْ! میں ڈلوا کر اوپر سے مٹی ڈلوادی‘ صرف امیہ بن خلف کا لاشہ اس لیے کہ پارہ پارہ ہو کراٹھانے کے قابل نہ رہا تھا اور اٹھا کر مشرکوں کے لاشوں کے ساتھ گڑھے میں نہ ڈالا جا سکا‘ لہذا اس کو وہیں مٹی ڈال کر چھپا دیا گیا۔کفار اس سراسیمگی سے بھاگے کہ اپنے سپہ سالار ابوجہل کو بھی نیم مردہ میدان ہی میں چھوڑ گئے۔ حرث بن زمعہ‘ ابوقیس بن الفاکہ‘ علی بن امیہ‘ عاص بن عتبہ یہ سب کے سب نوجوان تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ قیام مکہ کے زمانہ میں محبت اور تعلق رکھتے تھے‘ یا شاید مسلمان ہو گئے تھے‘ ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد ان لوگوں کے عزیزوں رشتہ داروں اور قبیلہ والوں نے ان کو بہت سختی سے ڈانٹا ڈپٹا اور مرتد ہونے کے لیے کہا‘ انہوں نے علانیہ اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے بیزای کا اظہار کیا اور اس لشکر کفار میں شامل ہو کر مسلمانوںسے لڑنے کے لیے آئے‘ یہ سب کے سب مقتول ہوئے‘ مکہ کے بڑے بڑے سردار جو اس لشکر میں آئے تھے قریباً سب کے سب مقتول ہوئے اور منہدم لشکر لے کر مکہ پہنچنے پر گھر گھر صف ماتم بچھ گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے تمام مال غنیمت جو کفار سے مسلمانوں کے ہاتھ آیا تھا ایک جگہ جمع کر کے عبداللہ بن کعب رضی اللہ عنہ (بنو بخار سے تھے) کے سپرد کیا‘ عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ اور زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو مدینہ کی بالائی اور نشیبی بستیوں کی طرف مژدہ فتح سنانے کے لیے روانہ کیا‘ سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ میں اپنے نائب بنا کر چھوڑ آئے تھے فرماتے ہیں کہ ہمیں اس فتح کی خوش خبری عین اس وقت پہنچی جب کہ ہم سیدنا رقیہ رضی اللہ عنھا بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم زوجہ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو دفن کر رہے تھے‘ ۱؎ یہ خبر مدینہ میں ۱۸ رمضان المبارک کو پہنچی تھی۔ بدر کے میدان جنگ سے فارغ ہو کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ کی طرف روانہ ہوئے‘ مقام صفراء میں پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم الہی کے موافق تمام مال غنیمت بحصہ مساوی مسلمانوں میں تقسیم فرمایا اور اسیران جنگ میں سے نضر بن الحارث بن کلاہ (از بنوعبدالدار) کی گردن مارنے کا حکم دیا۔ یہاں سے روانہ ہو کرمقام عرق الظبیہ میں پہنچے‘ یہاں عقبہ بن ابی معیط بن ابی عمرو بن لینہ کی گردن مارنے کا حکم دیا ۲؎…یہ دونوں جو اسیران جنگ بدر میں شامل تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے نہایت سخت و شدید دشمنی رکھتے اور اپنے عناد میں ابوجہل کے ہمسر تھے‘ نضر بن الحارث کو مقام صفراء میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اور عقبہ بن ابی معیط کو مقام عرق الظبیہ میں عاصم بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ نے قتل کیا۔