ملفوظات حکیم الامت جلد 24 - یونیکوڈ |
|
پھر فرمایا کہ یہاں تک بات مساوات کی تھی کہ جس طرح غیر مقلد حضرات ابن تیمیہؒ کی بات بے دلیل بھی مان لیتے ہیں حنفیہ کو بھی یہی حق کیوں حاصل نہ ہو کہ وہ ابو حنیفہ کی بات بغیر دلیل کے محض حسن ظن کی بناء پر مان لیں ۔ مگر اب میں آ گے بڑھتا ہوں اور ایک اور مثال سے یہ واضح کرتا ہوں کہ ابن تیمیہؒ کے اجتہاد اور امام اعظم ابو حنیفہؒ بلکہ انکے شاگردوں اور ان کے شاگردوں کے شاگردوں میں جو مجتہد ہوئے ہیں انکے اجتہاد میں کیا فرق ہے ۔ ابن تیمیہؒ نے کتاب مظالم میں لکھا ہے کہ اگر سلطان وقت کی طرف سے کوئی ظالمانہ ٹیکس اہل شہر کے ذمہ عائد کر دیا جائے تو اس سے اپنے آپ کو بچانا مطلقا جائز نہیں بلکہ یہ تفصیل ہے کہ اگر کوئی خاص رقم مجموعی طور پر معین نہ ہو تو جائز ہے اور اگر کوئی خاص معین رقم پورے شہر سے وصول کرنا ہے تو اس صورت میں اپنے آپ کو اس سے بچانا جائز نہیں کیونکہ یہ بچ گیا تو اسکا حصہ دوسرے مسلمانوں پر پڑ جائے گا وہ مزید ظلم میں مبتلا ہونگے اور یہ شخص اسکا سبب بنے گا ۔ اسکے مقابلہ میں فقہاء حنفیہ یہ کہتے ہیں کہ اس ظلم سے جو بچ سکتا ہے اسکو بچ جانا مطلقا جائز ہے اور اس کے بچ جانے سے جو زائد رقم دوسرے مسلمانوں پر پڑے گی اس کا سبب تو بیشک یہ ہوا مگر مباشر اس عملی ظلم کا وہ سلطان یا اسکا نائب ہے نہ کہ یہ شخص اور مباشر مختار کے ہوتے ہوئے سبب کی طرف فعل کی نسبت نہیں ہوتی ۔ اس لئے صورت مذکورہ میں اس مزید ظلم کا گناہ گار بھی وہی سلطان یا اسکا نائب ہے جسکے حکم سے یہ وصول کیا گیا ہے ۔ اب انصاف سے بتلائیے کہ اجتہاد کس کا زیادہ بہتر ہے ان عالم صاحب نے صاف لفظوں میں اعتراف کیا کہ بیشک ابن تیمیہؒ اس درجہ کو نہیں پہنچے ۔ اس کے بعد حضرتؒ نے فرمایا کہ حنفیہ کے اجتہاد کی دلیل میں ایک حدیث سے پیش کرتا ہوں وہ یہ کہ رسول اللہؐ نے شہادت فی سبیل اللہ کے فضائل بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے ۔ ود دت ان اقتل فی سبیل اللہ ثم احی ثم اقتل ثم احی ۔ میری یہ تمنا ہے کہ میں اللہ کی راہ میں قتل کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر قتل کیا جاؤں اور پھر زندہ اور پھر قتل کیا جاؤں ۔