ملفوظات حکیم الامت جلد 24 - یونیکوڈ |
الحسن قائلا لو ترکنا الطاعۃ لاجل المعصیۃ لا سرع ذلک فی دیننا للفرق بینھما و نقل الشھاب عن المقدسی فی الصحیح عند فقھائنا انہ لایشرک ما یطلب لمقارنۃ بدعۃ کترک اجابۃ دعوۃ لما فیھا من لملا ھی و صلوۃ الجنازۃ لنائحۃ فان قدر علی المنع منع والا صبر و ھذا اذا لم یقتدبہ والا یقعد لان فیہ شین الدین ۔ الی اخر ما فصلہ فلیطالع ثمہ ۔ اس آیت سے اسپر استدلال کیا گیا ہے کہ جب کوئی طاعت معصیت رائجہ کا سبب بن جائے تو اس طاعت کو بھی چھوڑ دینا واجب ہو جاتا ہے کیونکہ جو چیز کسی شر کا سبب مودی بنے وہ بھی شر ہے اور یہ بات اس سے الگ ہے کہ کسی ایسی جگہ میں جہاں معصیت ہو رہی ہو اور اس کے دفع کرنے پر قدرت نہ ہو وہاں کوئی طاعت ادا کی جائے اور بسا اوقات لوگوں پر یہ دونوں چیزیں مشتبہ ہو جاتی ہیں ۔ دونوں کا ایک ہی حکم سمجھ لیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ابن سیرین اس جنازہ میں شریک نہیں ہوئے جس میں مرد و عورتیں مخلوط شریک تھے اور حضرت حسنؒ نے اس کی مخالفت فرمائی اور کہا کہ اگر ہم معصیت کی موجودگی کی وجہ سے طاعت کو چھوڑ دیا کریں تو ہم بہت سی طاعات سے محروم ہو جائیں گے اور یہ ہمارے دین کی بربادی کا آسان راستہ ہو گا ۔ اور شہاب مقدسی سے نقل کیا ہے کہ صحیح ہمارے فقہا کے نزدیک یہ ہے کہ کسی طاعت مطلوبہ کو کسی بدعت کی مفارقت کی وجہ سے نہیں چھوڑا جا سکتا جیسے کسی ولیمہ کی دعوت نہ قبول کرنا اس بناء پر کہ وہاں لہو و لعب ہے یا جنازہ میں شرکت نہ کرنا اس وجہ سے کہ وہاں کوئی نوحہ کرنے والی عورت ہے ۔ بلکہ یہ ہونا چاہیے کہ ولیمہ اور جنارے میں شریک ہو اور جو گناہ کا کام ہو رہا ہو اس کو روکے اگر روکنے پر قدرت ہو ورنہ صبر کرے اور یہ جب ہے کہ ایسا کرنے والا قوم کا مقتدا نہ ہو اور اگر یہ مقتدا ہے تو اس کو شرکت نہیں چاہیے ۔ نیز اس مضمون کی تائید علامہ شامی کے کلام سے بھی ہوتی ہے جو فصل اتباع الجنائز میں لکھا ہے ۔ قول اللہ المختار ( ولا یترک اتباعھا لا جلھا ) ای لا جل النائحۃ لان السنۃ لا