ملفوظات حکیم الامت جلد 24 - یونیکوڈ |
|
مولانا رومیؒ بھی اسی کے قائل ہیں انہوں نے فرمایا ؎ بہر کیکے تو گلیمے رامسوز لیکن ہمارے فقہاء حنفیہ کا مسلک ان معاملات میں یہ ہے کہ جو مباح یا مستحب مقاصد شرعیہ میں سے ہوا اس کے ساتھ تو یہی معاملہ کرنا چاہیے کہ اگر اس میں کچھ منکرات شامل ہو جائیں منکرات کے ازالہ کی فکر کی جائے اصل کام کو نہ چھوڑا جائے ۔ مثلا مسجدوں کی جماعت میں کچھ منکرات شامل ہو جائیں تو اس کی وجہ سے جماعت چھوڑ دینا جائز نہیں ہو گا بلکہ منکرات کے ازالہ کی کوشش مقدور بھر واجب ہو گی ۔ اسی طرح اذان تعلیم قرآن وغیرہ کا معاملہ ہے کہ وہ مقاصد شرعیہ میں سے ہیں اگر ان میں سے کچھ منکرات شامل ہو جاویں تو ازالہ منکرات کی کوشش کی جاوے گی اصل کام کو نہ چھوڑا جاوے ۔ لیکن جو مستحبات ایسے ہیں کہ اصل مقاصد شرعیہ ان پر موقوف نہیں اگر ان میں کچھ منکرات و بدعات شامل ہو جاویں تو ایسے مستحبات ہی کو ترک کر دینا چاہیے مثلا زیارت قبول ذکر رسول ؐ کے لئے کسی محفل و مجلس کا انعقاد کہ اس پر کوئی مقصد شرعی موقوف نہیں ۔ وہ بغیر اس مجلس خاص صورت کے بعد پورے کر سکتے ہیں اگر ان میں منکرات و بد عات شامل ہو جاویں تو یہاں ایسی مجالس اور ایسے اجتماعات ہی کو ترک کر دینا لازم ہو جاتا ہے احادیث اور آثار صحابہ اور اقوال آئمہ میں اس کے بہت سے شواہد موجود ہیں جن کو علامہ شاطبی نے کتاب الاعتصام میں جمع فرما دیا ہے ۔ جس درخت کے نیچے رسول اللہ ؐ کا بیعت لینا اس پر اللہ تعالی کی رضا قرآن میں مذکور ہے جب اس کے نیچے لوگوں کا اجتماع اور بعض منکرات کا خطرہ حضرت فاروق اعظم نے محسوس فرمایا تو اس درخت ہی کو کٹوا دیا حالانکہ اس کے نیچے جمع ہونے والے صحابہ کوئی نا جائز کام نہ کرتے تھے محض تبرکا جمع ہوتے اور ذکر اللہ و ذکر رسول ؐ ہی میں مشغول رہتے تھے مگر چونکہ اجتماع مقصود شرعی نہیں تھا اور آئندہ اس میں شرک و بدعت کا خطرہ تھا اس لئے اس اجتماع ہی کو ختم کر دیا گیا ۔ اس طرح کے اور بھی متعدد واقعات حضرت فاروق اعظم اور دوسرے