تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کرنے میں کچھ تامل کرنے لگے۔ سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ کا اسلام لانا سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کے مسلمان ہونے کی خبر سن کر قریش کے فکر و تردد اور بغض و عداوت نے اور بھی ۱؎ سیرت ابن ہشام‘ صفحہ ۱۳۶ و ۱۳۷‘ رحمۃ للعالمین ۱/۹۶۔ ترقی کی اور آپس میں مشورے ہونے لگے‘ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی طرح مشہور پہلوان اور عرب کے نامور بہادروں میں سے تھے‘ مسلمانوں کو ایذا پہنچانے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف کوشش کرنے میں نمایاں حصہ لیتے تھے‘ وہ مسلمانوں کو پکڑ کر لاتے اور مارتے مارتے تھک جاتے تو دم لیتے اور پھر اٹھ کر مارتے‘ آخر ایک روز انہوں نے فیصلہ کیا اور کفار کی مجلس میں وعدہ کیا کہ میں تنہا قریش کے اوپر وارد ہونے والے اس فتنہ کو مٹائے دیتا ہوں‘ یعنی اس فتنہ کے بانی محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا کام تمام کئے دیتا ہوں۔ (نعوذ باللہ) ابوجہل نے یہ سن کر کہا کہ اگر تم نے یہ کام پورا کر دیا تو سو اونٹ اور ہزار اوقیہ چاندی نذر کروں گا‘ چنانچہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ مسلح ہو کر شمشیر بدست نکلے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تلاش و جستجو کرنے لگے‘ راستہ میں سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ۱؎ نے پوچھا کہ عمر رضی اللہ عنہ ! اس طرح کہاں جاتے ہو انہوں نے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو قتل کرنے جاتا ہوں‘ کیونکہ میرا ارادہ ہے کہ آج قریش کی مصیبت اور ان کی بیسیوں تدبیروں کو سہل کر دوں‘ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم بنی ہاشم کے انتقام سے نہیں ڈرتے؟ اور یہ نہیں جانتے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا قتل کوئی آسان کام نہیں ہے؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب تک میرے ہاتھ میں تلوار ہے مجھ کو کسی کا بھی کچھ خوف نہیں ہے پھر سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تم مجھ کو اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو تو بعد میں قتل کرنا پہلے اپنے ہی گھر کی خبر لو کہ تمہاری بہن مسلمان ہو چکی اور اسلام تمہارے گھر میں داخل ہو چکا ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ یہ نشتر زن جواب سن کر اسی وقت اپنی بہن کے گھر کی طرف چل دئیے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے قتل کے نیت سے چلے تھے راستے میں اپنی بہن کے گھر کی طرف ان کا رخ پھرنا گویا اسلام کی طرف رخ پھرنا تھا‘ بہن کے گھر پہنچے وہاں سیدنا خباب بن الارت رضی اللہ عنہ ‘ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی بہن فاطمہ رضی اللہ عنہ اور ان کے شوہر سیدنا سعید بن زید رضی اللہ عنہ کو قرآن شریف کی تعلیم دے رہے تھے‘ ان کے آنے کی آہٹ سن کر سیدنا خباب رضی اللہ عنہ تو وہیں گھر میں کسی جگہ چھپ گئے اور قرآن کریم جن اوراق پر لکھا ہوا تھا اس کو بھی فوراً چھپا دیا‘ انہوں نے گھر میں داخل ہوتے ہی پوچھا کہ تم کیا پڑھ رہے تھے؟ پھر فوراً اپنے بہنوئی سعید بن زید رضی اللہ عنہ کو پکڑ کر گرا دیا اور مارنا شروع کر دیا کہ تم کیوں مسلمان ہوئے۔ بہن اپنے شوہر کو چھڑانے کے لیے آگے بڑھی اوربھائی سے لپٹ گئی‘ اس کشتم کشتا میں ان کی بہن فاطمہ رضی اللہ عنہ کے ایسی چوٹ لگی کہ ان کے سر سے خون جاری ہو گیا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے بہن اور بہنوئی دونوں کو مارا‘ بہن نے آخر دلیری سے کہا کہ