تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کا ہجوم دیکھ کر ان کو کچھ جرات نہ ہوئی‘ اتفاقاً سیدہ فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہ جو بچی تھیں آ گئیں اور انہوں نے آگے بڑھ کر باپ صلی اللہ علیہ و سلم کی پشت پر سے اس اوجھڑی کو پرے سرکایا اور کفار کو بھی برا بھلا کہا۔۲؎ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے مکان پر پتھر پھینکے جاتے تھے‘ گندگی وغیرہ بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے گھر پر پھینک دیتے تھے‘ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اے بنو عبدمناف یہ اچھا ہمسائیگی کا حق ادا کر رہے ہو؟۳؎ کبھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا نام شاعر رکھا جاتا تھا‘ کبھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو ساحر کہہ کر پکارا جاتا تھا‘ کبھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم ۱؎ صحیحبخاری۔کتاباحادیثالانبیاءبابذکرمالقیالنبی صلی اللہ علیہ و سلم منالمشرکینبمکۃسیرتابنہشامص۱۳۵۔ ۲؎ صحیحبخاری۔کتابالوضوءحدیث۲۴۰پھر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے سر اٹھایا اور تین بار قریش کے لیے بد دعا فرمائی کہ ’’اے اللہ! تو قریش کو پکڑ لے۔‘‘ پھر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سب کا نام لے لے کر بد دعا فرمائی کہ ’’اے اللہ! ابوجہل‘ عتبہ بن ربیعہ‘ شیبہ بن ربیعہ‘ ولید بن عتبہ‘ امیہ بن خلف اور عقبہ بن ابی معیط کو پکڑ لے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ساتویں شخص کا نام بھی لیا تھا لیکن راوی کو یاد نہیں رہا۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے‘ میں نے دیکھا کہ جن لوگوں کے نام رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے گن گن کر لیے تھے‘ سب کے سب بدر کے کنویں میں قتل ہوئے پڑے تھے۔‘‘ (حوالہ مذکورہ) ۳؎ سیرت ابن ہشام بہ حوالہ الرحیق المختوم‘ صفحہ ۱۲۵۔ کو کاہن کہتے اور کبھی مجنوں کا خطاب دیتے۔ غرض کفار مکہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی جماعت کو تکلیف پہنچانے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے کام میں رکاوٹ پیدا کرنے میںکوئی کوتاہی نہیں کی ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بھی پورے عزم و استقلال اور ہمت و جرئات کیساتھ اپنے کام میں مصروف تھے‘ جب قریش کو اس امر کا یقین ہو گیا کہ ہماری کوششوںسے کوئی حسب منشا نتیجہ پیدا نہیں ہوا تو انہوں نے مجبوراً دوسرا پہلو اختیار کیا۔ صاف جواب قریش نے جمع ہو کر مشورہ کیا اور عتبہ بن ربیعہ کو اپنی طرف سے پیغام دے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس بھیجا۔ عتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا اور بڑی نرمی کے ساتھ کہنے لگا : ’’محمد صلی اللہ علیہ و سلم ‘‘ تم شریف ہو‘ تمہارا خاندان بھی شریف و معزز ہے‘ مگر تم نے قوم کے اندر فتنہ ڈال رکھا ہے‘ ۱؎یہ بتائو کہ آخر تمہارا مقصد کیا ہے؟ اگر تم کو مال و دولت کی خواہش ہے تو ہم تمہارے واسطے اس قدر مال جمع کئے دیتے ہیں کہ تم سب سے زیادہ مال دار ہو جائو گے‘ اگر تم کو حکومت اور سرداری کی خواہش ہے تو ہم سب تم کو اپنا سردار بنا لینے اور تمہاری حکمت تسلیم کرنے کو تیار ہیں‘ اگر تم کو شادی کرنی منظور ہے تو ہم سب سے اعلیٰ گھرانے کی سب سے زیادہ حسین لڑکی سے تمہاری شادی کرائے دیتے ہیں اوراگر ان سب چیزوں کی خواہش ہے تو یہ سب تمہارے لیے فراہم کئے دیتے ہیں‘ تم اپنا دلی منشا صاف صاف بیان کر دو ہم تمہاری ہر خواہش پوری کرنے کو تیار ہیں۔‘‘