تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کر سردار قریش یعنی عبدالمطلب سے استدعا کی کہ آپ ابرہہ کے پاس جائیں اور کوئی صورت بہتری کی نکالیں‘ چنانچہ عبدالمطلب ابرہہ کے پاس پہنچے اس نے جب ان کی شریف و وجیہہ صورت دیکھی اور ان کی نجابت و سرداری کا حال سنا تو بہت متاثر ہوا اور عزت کے مقام پر بٹھایا اور آنے کا مقصد دریافت کیا‘ عبدالمطلب نے کہا کہ آپ کے لشکر نے میرے (چالیس ‘ یا دو سو) اونٹ پکڑ لیے ہیں وہ مجھے دلوائے ۱؎ زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ عنہ کی قبل از اسلام کی کیفیت جس میں ان کی شرک سے بے زاری ظاہر ہوتی ہے‘ صحیح بخاری‘ کتاب مناقب الانصار‘ حدیث ۳۸۲۶ تا ۳۸۲۸ میں بیان ہوئی ہے اور ایمان میں اضافہ اور توحید سے سرشاد ہونے کے لیے لائق مطالعہ ہے۔ جائیں‘ ابرہہ نے کہا کہ میں تم کو بہت عقلمند اور ذی ہوش شخص سمجھتا تھا لیکن میرا خیال غلط نکلا‘ تم کو معلوم ہے کہ میں خانہ کعبہ کو مسمار کرنے آیا ہوں‘ تم نے اپنے اونٹ لینے کی کوشش کی لیکن خانہ کعبہ کے بچانے کی کوئی تدبیر نہ کی۔ عبدالمطلب نے فوراً برجستہ جواب دیا کہ انا رب الابل وللبیت رب یمنعہ‘میںتو صرف اونٹوں کا مالک ہوں مگر اس گھر کا بھی ایک مالک ہے وہ اپنے گھر کی خود حفاظت کر لے گا) ابرہہ اس جواب کو سن کر برہم ہوا اور اس نے کہا کہ اچھا میں دیکھوں گا کہ رب البیت مجھ کو کس طرح روکتا اور کعبہ کی حفاظت کرتا ہے‘ چنانچہ اس کے لشکر پر تباہی آئی اور وہ سب ’’کعصف ماکول‘‘۱؎ ہو گئے۔۲؎ ابرہہ اور اس کے لشکر کا عبدالمطلب کے اس جواب کے بعد اس طرح تباہ و برباد ہونا ملک عرب کے لیے ایک نہایت عظیم الشان واقعہ تھا‘ جس نے سب کے دلوں میں ہیبت الہی قائم کر دی تھی اور اکثر لوگوں کو ظلم و ستم اور قتل و غارت میں تامل ہونے لگا۔ مذکورہ واقعہ اصحاب فیل کے بعد ہی ملک یمن کی حکومت شاہ حبش کے قبضہ سے نکل گئی اور سیف بن ذی یزن (یادگار ملوک تبابعہ) ملک یمن پر قابض و متصرف ہوا‘ عبدالمطلب چند شرفائے قریش کو ہمراہ لے کر سیف کو حکومت یمن کی مبارک باد دینے کے لیے گئے‘ سیف بن ذی یزن نے اپنے علم و واقفیت کی بنا پر عبدالمطلب کو خوش خبری سنائی کہ نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ و سلم جس کا تمام ملک اور ہر قوم کو انتظار ہے‘ تمہاری اولاد سے ہو گا‘ اس بات کی عام طور پر شہرت ہوئی‘ تمام شریک وفد شرکاء کو اس بات کا شبہ ہوا کہ وہ نبی ہماری اولاد سے ہو گا‘ اب لوگ اہل کتاب کے احبار و رہبان کے پاس جا جا کر نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ و سلم کے حالات اور علامات دریافت کرنے لگے۔ امیہ بن ابی الصلت کو یہ خیال ہوا کہ وہ نبی شاید میں ہوں گا چنانچہ وہ ابوسفیان بن حرب کے ساتھ ملک شام کی طرف گیا اور کئی رہبان کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی نسبت دریافت کیا مگر وہاں سے مایوس کن جواب ملا۔ دنیا میں کسی بڑے نبی یا رسول کی بعثت یا پیدائش کے وقت آسمان پر بڑی کثرت سے اور غیر معمولی طور پر ستارے ٹوٹتے ہوئے دیکھے جاتے رہے تھے‘ چنانچہ اسی کثرت سے غیر معمولی طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی پیدائش کے قریب شہاب ثاقب آسمان پر نمودار ہوئے اور علمائے اہل کتاب نے حکم لگایا کہ یہ نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ و سلم کی پیدائش کا زمانہ ہے چنانچہ ۹ ربیع الاول ۱ ھ عام الفیل مطابق ۱؎ ’’کھایا ہوا بھوسہ۔‘‘