تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
عصیاں کی آندھیاں چل رہی تھیں‘ خود بخود ایسے نشانات ظاہر کرنے لگے جن سے ثابت ہوتا تھا کہ اس ملک میں آفتاب رسالت طلوع ہونے اور ہدایت کا چشمہ پھوٹنے والا ہے۔ اقوام عرب ہزار ہا سال سے ذلت و مسکنت اور جہالت و گمراہی کی زندگی بسر کر رہی تھیں لیکن بعثت نبوی نہیں بلکہ پیدائش نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کے وقت سے قبائل عرب میں شریفانہ جذبات اور برے کاموں سے نفرت پیدا ہونے لگی تھی۔ ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبدالعزیٰ‘ عثمان بن الحویرث بن اسد و زید بن عمرو بن نفیل عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ ‘ عبیداللہ بن جحش وغیرہ کئی شخص ایک جگہ جمع ہوئے اور اپنے عقائد و اعمال پر غور کرنے لگے۔ بالآخر سب نے متفقہ طور سے پتھروں اور بتوں کی پرستش سے بیزاری ظاہر کی اور مختلف مقامات کی طرف دین ابراہیمی کی جستجو میں نکل کھڑے ہوئے۔ ورقہ بن نوفل نے دین مسیحی اختیار کر لیا اور بڑی محنت و توجہ سے توریت و انجیل وغیرہ اہل کتاب کی کتابیں پڑھیں۔ عبیداللہ بن جحش اپنے خیال پر قائم یعنی دین حنیف کی جستجو میں مصروف رہا۔ یہاں تک کہ اسلام کا ظہور ہوا اور اس نے اسلام قبول کیا۔ حبش کی طرف ہجرت کی۔ وہاں جا کر نصرانیت کی طرف مائل ہوا۔ عثمان بن الحویرث قیصر روم کے پاس جا کر نصرانی ہو گیا۔ زید بن عمرو نے نہ تو یہود و نصاریٰ کا مذہب اختیار کیا نہ بت پرستی کی‘ خون اور مردہ جانوروں کو اپنے اوپر حرام کیا‘ قطع رحم اور خون ریزی سے پرہیز کیا۔ جب کوئی شخص ان سے دریافت کرتا تو کہتے کہ میں رب ابراہیم علیہ السلام کی پرستش کرتا ہوں۔ بتوں کی برائیاں بیان کرتے اور اپنی قوم کو نصیحت و ملامت کرتے۔ اکثر ان کی زبان پر یہ لفظ جاری ہوتے تھے کہ اللھم لو انی اعلم ای الوجوہ احب الیک لعبدتک ولکن لا اعلم‘’’یعنی اے اللہ! اگر میں اس بات سے واقف ہو جاتا کہ کس طرح تیری عبادت کی جائے تو میں ضرور تیری عبادت کرتا اور تیری رضا مندی حاصل کرتا لیکن میں تو تیری رضا کی راہوں سے ناواقف ہوں (یہ کہتے اور سجدہ میں چلے جاتے)۔۱؎ کاہنوں اور منجموں نے بھی یہ کہنا شروع کیا کہ ملک عرب میں ایک عظیم الشان نبی پیدا ہونے والا ہے‘ اور بہت جلد اسکی حکومت ظاہر ہوا چاہتی ہے‘ ملک عرب میں جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے یہودی بھی آباد تھے اور نصاریٰ بھی ‘ علماء یہود نے بھی اور علمائے نصاریٰ نے بھی توریت و انجیل کی بشارتیں بیان کرنی اور لوگوں کو سنانی شروع کیں کہ نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ و سلم ملک عرب میں عنقریب ظاہر ہوا چاہتے ہیں۔ چند روز کے لیے ملک یمن پر شاہ حبش کا قبضہ ہو گیا تھا‘ عبدالمطلب کے زمانہ میں بھی یمن کا علاقہ شاہ حبش کے ماتحت تھا‘ اس زمانہ میں شاہ حبش کی جانب سے ابراہۃ الاشرم یمن کا صوبہ دار تھا‘ اس نے یمن میں ایک معبد تیار کیا اور اہل عرب کو ترغیب دی کہ بجائے کعبہ کے یمن کے اس مندر کا رخ کیا کریں‘ لیکن اس کو اپنی اس تحریک میں کامیابی نہ ہوئی بلکہ ایک عرب نے موقع پا کر اس مندر میں اس کی تذلیل کے لیے پاخانہ کہ دیا‘ ابرہہ نے جوش انتقام میں مکہ پر چڑھائی کی اور اس ارادہ سے روانہ ہوا کہ خانہ کعبہ کو مسمار کر دوں گا‘ اس کی فوج میں ہاتھی بھی تھے اس لیے مکہ والوں نے اس فوج کا نام اصحاب الفیل اور اس سال کا نام عام الفیل رکھا۔ مکہ کے قریب پہنچ کر ابرہہ نے جب مقام کیا تو قریش مکہ اس فوج کے آنے کی خبر سن کر خوف زدہ ہوئے کیونکہ ان میں اس فوج کے مقابلہ کی طاقت نہ تھی‘ سب نے مل