تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
باتیں کرتی‘ اور اس کی عمر پانچ چھ سال کی ہو جاتی تب اس کو اچھے کپڑے پہنا کر سنگ دل باپ خود لے کر بستی سے باہر جاتا جہاں وہ پہلے سے ایک گہرا گڑھا کھود آتا تھا‘ اس گڑھے کے کنارے اس لڑکی کو کھڑا کر کے پیچھے سے دھکا دے کر گرا دیتا وہ لڑکی چیختی چلاتی اور باپ سے امداد طلب کرتی‘ لیکن وہ ظالم باپ اوپر سے ڈھیلے مار کر اور مٹی ڈال کر اس کو دبا دیتا اور زمین ہموار کر کے واپس چلا آتا اور اس طرح اپنے لخت جگر کو زندہ در گور کرنے پر فخر کرتا‘ بنی تمیم کے ایک شخص قیس بن عاصم نے اسی طرح اپنی دس لڑکیاں زندہ دفن کی تھیں۔ دختر کشی کی اس ظالمانہ رسم سے عرب کا کوئی بھی قبیلہ پاک نہ تھا مگر بعض قبیلوں میں یہ حرکت کثرت سے ہوتی تھی اور بعض میں کسی قدر کم۔ قمار بازی عرب جاہلیت میں قمار بازی کے بھی بہت شائق تھے‘ زیادہ تر ’’ازلام‘‘ کے ذریعہ جوا کھیلا جاتا تھا‘ ازلام۱؎ جوا کھیلنے کے خاص تیر ہوتے تھے جن پر پر نہیں لگے ہوتے تھے۔ ان کی تعداد دس ہوتی تھی‘ ہر ایک تیر کا جدا جدا نام ہوتا تھا‘ بالترتیب ان کے نام یہ تھے (۱) غذ (۲) توام (۳) رقیب (۴) نافس (۵) حلس (۶) مبل (۷) معلی (۸) فسیح (۹) منیح (۱۰) وغد‘ ان میں سے ہر ایک تیر کا خاص حصہ ہوتا تھا‘ مثلاً غذ کا ایک حصہ توام کے دو رنیب کے تین۔ اسی طرح ایک بڑھتا گیا‘ یہاں تک کہ معلیٰ کے سات حصے قرار پائے۔ باقی آخر کے تین تیروں کا کوئی حصہ نہیں تھا۔ دس مالدار لوگ موٹی موٹی بکریوں کو مول لیتے اور ان کو ذبح کر کے اٹھائیس حصوں پر تقسیم کرتے‘ تمام تیروں کو ایک ترکش میں کسی ایک شخص کے ہاتھ میں دے دیتے وہ ایک ایک تیر نکال نکال کر ایک ایک شخص کے ہاتھ میں دیتا جاتا‘ جو تیر جس شخص کے پاس آتا اسی کے موافق اس کو حصہ مل جاتا‘ پچھلے تین تیر جن کے ہاتھ میں آتے وہ تینوں محروم رہتے‘ یہ جوا خاص کعبہ کے اندر ہبل کے سامنے کھیلا جاتا تھا۔ ایک طریقہ قمار بازی کا یہ تھا کہ تھوڑی سی ریت جمع کر کے کوئی چیز اس میں چھپا دیتے‘ اس کے ۱؎ ازلام کی حرمت کا ذکر قرآن کریم میں سورۃ المائدۃ ۵‘ آیت ۔۹۰ میں آیا ہے۔ بعد اس ریت کو دوڑھیریاں کر دیتے‘ اور دریافت کرتے کہ بتائو وہ چیز کون سی ڈھیری میں ہے‘ جو شخص ٹھیک بتا دیتا وہ جیت جاتا اور جو غلط بتاتا وہ ہار جاتا۔ عرب جاہلیت اور دوسرے ممالک اوپر کی فصل میں عرب اور اس کے باشندوں کی نسبت جو کچھ بیان ہوا ہے یہ ظہور اسلام اور بعثت نبوی صلی اللہ علیہ و سلم سے پہلے کی حالت ہے‘ اہل عرب کے اخلاق‘ عادات معاشرت‘ مذہب‘ عقائد وغیرہ کی نسبت جو کچھ اوپر بیان ہوا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ سے قریباً ایک صدی پہلے تک کی حالت ہے‘ اور یہی حالت بعثت نبوی صلی اللہ علیہ و سلم تک قائم تھی‘ قارئین کرام خود غور فرمائیں کہ جن لوگوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مبعوث ہوئے اور جو اسلام کے اول مخاطبین بنے کس قدر پست اور ذلیل حالت میں تھے‘ پھر آئندہ صفحات میں رسول عربی صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیمات اور اسلام کے اثر سے عرب کے انقلاب کا حال پڑھ کر زیادہ صحیح اندازہ ہو سکے گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی روحانیت اور اسلام کا اثر کس