تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بدکاری کی ہے۔ جب کوئی شخص مر جاتا تو اس کی اونٹنی کو اس کی قبر کے پاس باندھ کر اس کی آنکھیں بند کر دیتے ۱؎ یہ عقل و شعور کی موت نہیں تو اور کیا ہے۔ یہاں تک کہ وہ مر جاتی‘ یا اس اونٹنی کے سر کو اس کی پشت کی جانب کھینچ کر سینے کے قریب لا کر باندھ دیتے اور اسی حالت میں چھوڑ دیتے یہاں تک کہ وہ مر جاتی‘ یہ کام ان کے عقیدہ کے موافق اس لیے کیا جاتا تھا کے مرنے کے بعد جب یہ شخص قبر سے اٹھے گا تو اس اونٹنی پر سوار ہو کر اٹھے گا۔ ان کا عقیدہ تھا کہ جب کوئی شخص کسی بستی میں جائے اور وہاں کی وبا کا اس کو خوف ہو تو چاہیئے کہ اس بستی کے دروازے پر کھڑا ہو کر خوب زور سے گدھے کی سی آوازیں نکالے تاکہ وباء سے محفوظ رہے۔ جب کسی کے پاس ایک ہزار سے زیادہ اونٹ ہو جاتے تو ان میں جو سانڈ ہوتا اس کی دونوں آنکھیں نکال لیتے تاکہ تمام اونٹ نظر بد سے محفوظ رہیں‘ جب کسی اونٹ کو داء العر یعنی خارش کا مرض ہوتا تو مریض کو نہیں بلکہ تندرست اونٹ کو داغ دیتے اور یقین رکھتے کہ اس کے اثر سے بیمار اونٹ اچھا ہو جائے گا‘ نابغہ کا شعر ہے۔ حملت علی ذنبہ و ترکتہ کذی العر یکوی غیرہ وھو راتع ’’تو نے غیر کو تو چھوڑ دیا اور اس کا گناہ میرے اوپر اس طرح لاد دیا جیسے کہ عر کی بیماری کے مریض اونٹ کو چھوڑ کر اس کے عوض تندرست اونٹ کو جو مزے سے چر رہا ہو داغ دیا جاتا ہے۔‘‘ اسی طرح جب کوئی گائے پانی نہ پیتی تو بیلوں کو مارتے‘ ان کا عقیدہ تھا کہ جن بیلوں پر سوار ہو جاتا ہے اور گا یوں کو پانی پینے سے روکتا ہے۔ان کا عقیدہ تھا کہ اگر مقتول کا بدلہ قاتل سے نہ لیا تو مقتول کی کھوپڑی میںسے ایک پرندہ جس کا نام ہامہ ہے نکلتا ہے اور جب تک انتقام نہ لے لیا جائے برابر چیختا پھرتا ہے کہ مجھے پانی پلائو ‘ پانی پلائو۔ان کا عقیدہ تھا کہ بعض انسانوں کے پیٹ میں ایک سانپ رہتا ہے‘ جب وہ سانپ بھوکا ہوتا ہے تو پسلی کی ہڈیوں پر سے گوشت نوچ نوچ کر کھاتا ہے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ اگر کسی عورت کے بچے مر جایا کرتے ہوں اور عورت کسی شریف متمول آدمی کی لاش کو اپنے پائوں سے خوب کچلے تو پھر اس کے بچے جینے لگتے ہیں۔۱؎ ان کا عقیدہ تھا کہ جن خرگوش سے بہت ڈرتا ہے اس لیے جنوں سے محفوظ رہنے کے لیے خرگوش کی ہڈی بطور تعویذ کے بچوں کے گلے میں ڈالتے تھے۔۲؎ ۱؎ و ۲؎ مشرکین عرب فاسد و بد عقیدہ توہمات کی انتہاء کو پہنچے ہوئے تھے۔ یہ فاسد عقائد ان کے ذہن و فکر کے بھرپور عکاس ہیں۔ دختر کشی بنی تمیم اور قریش میں دختر کشی کی رسم سب سے زیادہ جاری تھی‘ اس رسم دختر کشی پروہ فخر کرتے اور اپنے لیے نشان عزت سمجھتے تھے‘ بعض گھرانوں میں یہ سنگدلی یہاں تک بڑھی ہوئی تھی کہ لڑکی جب بڑی ہو جاتی‘ یعنی خوب میٹھی میٹھی