تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
انبار میں مقیم تھے کہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے آ کر ان کا محاصرہ کر لیا‘ اور عبداللہ بن عامر کو تحریک صلح کے لیے مدائن کی طرف بطور مقدمۃ الجیش روانہ کیا‘ ادھر مدائن میں پہنچ کر اور اپنے لشکر والوں کی یہ بدتمیزیاں دیکھ کر سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ پہلے ہی صلح کا ارادہ کر کے سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس ایک قاصد یعنی عبداللہ بن حارث بن نوفل کو جو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بھانجے تھے مع درخواست صلح روانہ کر چکے تھے۔ عبداللہ بن عامر کو مدائن کے قریب پہنچا ہوا سن کر سیدنا حسن رضی اللہ عنہ مقابلہ کے لیے معہ لشکر مدائن سے نکلے‘ عبداللہ بن عامر نے اپنے مقابلہ پر لشکر کو آتا ہوا دیکھ کر اور قریب پہنچ کر اہل عراق کو مخاطب کر کے کہا کہ میں لڑنے کے لیے نہیں آیاہوں‘ میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا مقدمۃ الجیش ہوں اور امیر معاویہ انبار میں بڑے لشکر کے ساتھ مقیم ہیں‘ تم لوگ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی خدمت میں میرا سلام پہنچائو اور عرض کرو کہ عبداللہ آپ کو اللہ تعالیٰ کا واسطہ دے کر کہتا ہے کہ لڑائی سے ہاتھ روکو تاکہ ہلاکت سے بچ جائیں‘ سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ نے یہ بات سنی تو مدائن میں واپس چلے آئے اور عبداللہ کے پاس پیغام بھیجا کہ میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ صلح کرنے اور خلافت سے دست بردار ہونے پر آمادہ ہوں بشرطیکہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ میری چند شرطیں منظور کر لیں جن میں سب سے مقدم یہ ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کتاب و سنت پر عامل رہنے اور سابقہ مخالفتوں کو فراموش کر کے کسی کے جان و مال سے تعرض نہ کرنے اور ہمارے طرف داروں کو جان کی امان دینے کا وعدہ کر لیں‘ والصلح خیر۔ عبداللہ بن عامر یہ سن کر فوراً سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس واپس گئے اور کہا کہ چند شرطوں کے ساتھ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ تفویض خلافت پر آمادہ ہیں‘ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا‘ وہ شرطیں کیا ہیں‘ عبداللہ بن عامر نے کہا کہ پہلی شرط یہ ہے کہ جب تم فوت ہو جائو تو تمہارے بعد خلافت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو ملے‘ دوسری شرط یہ ہے کہ جب تک تم زندہ رہو ہر سال پانچ لاکھ درہم سالانہ بیت المال سے امام حسن رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجتے رہو‘ تیسری شرط یہ ہے کہ علاقہ اہواز و فارس کا خراج امام حسن رضی اللہ عنہ کو ملا کرے۔ یہ تینوں شرطیں عبداللہ بن عامر نے بطور خود سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کی طرف سے پیش کر کے پھر وہ شرطیں سنائیں جو سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن عامر سے کہلا کر بھجوائی تھیں۔ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھ کو یہ تمام شرطیں منظور ہیں‘ اور سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ ان کے علاوہ بھی کوئی اور شرط پیش کریں گے تو وہ بھی مجھ کو منظور ہے کیونکہ ان کی نیت نیک معلوم ہوتی ہے‘ اور وہ مسلمانوں میں صلح و آشتی کے خواہاں نظر آتے ہیں‘ یہ کہہ کر سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایک سفید کاغذ پر اپنی مہر و دستخط ثبت کر کے عبداللہ بن عامر کو دیا اور کہا کہ یہ کاغذ سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کے پاس لے جائو اور ان سے کہو کہ جو جو شرطیں آپ چاہیں اس کاغذ پر لکھ لیں میں سب کو پورا کرنے کے لیے تیار ہوں۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ کو جب یہ معلوم ہوا کہ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ صلح پر آمادہ ہیں تو وہ ان کے پاس آئے اور اس ارادے سے