تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
نے فرمایا کہ میں مسلمانوں کا ذلیل کرنے والا نہیں ہوں‘ بلکہ مجھے یہ اچھا نہ معلوم ہوا کہ تم کو ملک کے لیے قتل کرا دیتا۔ جبیر بن نفیر کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ سے کہا کہ افواہ ہے کہ آپ پھر خلافت کے خواہشمند ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ جب اہل عرب کے سر میرے ہاتھ میں تھے جس سے چاہتا لڑا دیتا اس وقت میں نے محض خوشنودی الہی کے لیے خلافت چھوڑ دی‘ تو اب محض اہل حجاز کو خوش کرنے کے لیے کیوں قبول کرنے لگا تھا۔ آپ نے ماہ ربیع الاول ۵۰ ھ میں وفات پائی‘ بعض لوگ کہتے ہیں کہ آپ کی شہادت زہر کے ذریعہ ہوئی‘ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے ہر چند آپ سے معلوم کرنا چاہا کہ آپ کو کس نے زہر دیا‘ مگر آپ نے نہ بتلایا اور فرمایا کہ جس پر میرا شبہ ہے اگر وہی میرا قاتل ہے تو خدائے تعالیٰ سخت انتقام لینے والا ہے‘ ورنہ میرے واسطے کوئی کیوں ناحق قتل کیا جائے۔ سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کی خلافت کے قابل تذکرہ واقعات سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے وفات کے وقت دریافت کیا گیا تھا کہ آپ کے بعد سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی جائے‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں اپنے حال میں مشغول ہوں‘ تم جس کو پسند کرو‘ اس کے ہاتھ پر بیعت کر لینا‘ لوگوں نے اس کو سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کے متعلق اجازت سمجھ کر ان کے ہاتھ پر بیعت کی‘ سب سے پہلے قیس ابن سعد ابن عبادہ نے بیعت کے لیے ہاتھ بڑھایا‘ اس کے بعد اور لوگ بھی آ آ کر بیعت کرنے لگے‘ بیعت کے وقت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ لوگوں سے اقرار لیتے جاتے تھے کہ میرے کہنے پر عمل کرنا‘ جس سے میں جنگ کروں تم بھی جنگ کرنا اور جس سے میں صلح کروں تم بھی اس سے صلح کرنا۔ اس بیعت کے بعد ہی اہل کوفہ آپس میں سرگوشیاں کرنے لگے کہ ان کا ارادہ جنگ کرنے کا نہیں معلوم ہوتا‘ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کا حال معلوم ہوا تو انہوں نے اپنے لیے امیر المومنین رضی اللہ عنہ کا لقب اختیار کیا اور اگرچہ وہ اہل شام سے فیصلہ حکمین کے بعد ہی بیعت خلافت لے چکے تھے‘ لیکن اب دوبارہ پھر تجدید بیعت کرائی۔ قیس بن سعد رضی اللہ عنہ جب سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کرنے لگے تھے‘ تو انہوں نے کہا تھا کہ میں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نیز ملحدین سے جہاد کرنے پر بیعت کرتا ہوں‘ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا تھا کہ قتال وجہاد وغیرہ سب کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میں شامل ہیں‘ ان کے علیحدہ نام لینے کی ضرورت نہیں‘ اسی فقرہ سے اہل کوفہ کو مذکورہ سرگوشی کا موقع ملا تھا‘ اور ان کو شبہ ہو گیا تھا کہ یہ جنگ کی طرف مائل نہیں ہوتے۔ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ تجدید بیعت کے کام سے فارغ ہو کر اور ساٹھ ہزار کا لشکر لے کر دمشق سے کوفہ کی جانب روانہ ہوئے اور سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کے پاس پیغام بھیجا کہ صلح جنگ سے بہتر ہے اور مناسب یہی ہے کہ آپ مجھ کو خلیفہ وقت تسلیم کر کے میرے ہاتھ بیعت کر لیں سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر کہ سیدنا امیر معاویہ کوفہ کا عزم رکھتے ہیں چالیس ہزار کا لشکر اپنے ہمراہ لیا اور کوفہ سے روانہ ہوئے‘ منزلیں طے کرتے ہوئے جب مقام دیر عبدالرحمن میں پہنچے تو قیس بن سعد