تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے بہت زیادہ مشابہ تھے‘ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان کو سب سے زیادہ عزیز رکھتے تھے۔ خصائل حمیدہ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نہایت حلیم‘ صاحب وقار‘ صاحب حشمت اور نہایت سخی تھے‘ فتنہ و خون ریزی سے آپ کو سخت نفرت تھی‘ آپ نے پیادہ پا پچیس حج کئے‘ حالانکہ اونٹ گھوڑے آپ کے ہمراہ ہوتے تھے۔ عمیر بن اسحاق کہتے ہیں کہ صرف سیدنا حسن رضی اللہ عنہ ہی ایک ایسے شخص تھے کہ جب بات کرتے تھے تو میں چاہتا تھا کہ آپ باتیں کئے جائیں‘ اور اپنا کلام ختم نہ کریں‘ اور آپ کی زبان سے میں نے کبھی کوئی فحش کلمہ نہیں سنا۔ مروان بن الحکم جب مدینہ کا عامل تھا اور سیدنا حسن رضی اللہ عنہ بھی بعد ترک خلافت مدینہ ہی میں ۱؎ صحیحبخاریکتابالصلححدیث۲۷۰۴۔ رہتے تھے تو مروان نے ایک مرتبہ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کے پاس ایک آدمی کی زبانی کہلا بھجوایا کہ تیری مثال خچر کی سی ہے(نعوذ باللہ) کہ جب اس سے پوچھا جائے کہ تیرا باپ کون تھا تو وہ کہتا ہے کہ میری ماں گھوڑی تھی‘ آپ نے اس کے جواب میں کہلا بھیجا کہ میں یہ بات کبھی نہ بھولوں گا کہ تو مجھے بلا سبب گالیاں دیتا ہے‘ آخر ایک روز تجھ کو اور مجھ کو خدا تعالیٰ کے سامنے جانا ہے‘ اگر تو اپنے قول میں سچا ہے‘ تو خدائے تعالیٰ تجھ کو سچ بولنے کی جزائے خیر دے اور اگر تو جھوٹا ہے تو خوب یاد رکھ کہ خدائے تعالیٰ سب سے زیادہ منتقم ہیں‘ جریر ابن اسماء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے وفات پائی‘ تو مروان آپ کے جنازہ پر رونے لگا‘ حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اب تو تو روتا ہے اور زندگی میں ان کو ستاتا رہا‘ مروان نے کہا جانتے بھی ہو‘ میں اس شخص کے ساتھ ایسا کرتا تھا جو پہاڑ سے بھی زیادہ حلیم تھا۔ علی بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے دو مرتبہ اپنا مال راہ خدا میں خیرات کیا اور تین مرتبہ نصف نصف خیرات کر دیا‘ یہاں تک کہ ایک جوتا رکھ لیا‘ ایک دے دیا‘ ایک موزہ رکھ لیا‘ اور ایک دے دیا‘ آپ عورتوں کو طلاق بہت دیا کرتے تھے‘ بجز اس کے جس کو آپ سے محبت ہو جاتی‘ حتیٰ کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو اہل کوفہ سے کہنا پڑا کہ تم میرے بیٹے حسن کو لڑکیاں نہ دو‘ لیکن ہمدان نے کہا کہ ہم سے یہ نہ ہو گا کہ لڑکیاں ان کے نکاح میں نہ دیں۔ ایک مرتبہ آپ کے سامنے ذکر ہوا کہ ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں تونگری سے مفلسی کو اور تندرستی سے بیماری کو زیادہ عزیز رکھتا ہوں‘ آپ نے فرمایا کہ خدا ان پر رحم کرے‘ میں تو اپنے آپ کو بالکل خدا کے ہاتھ میں چھوڑتا ہوں اور کسی بات کی تمنا نہیں کرتا‘ وہ جو کچھ چاہے کرے مجھے دخل دینے کی کیا مجال ہے۔ آپ نے ربیع الاول ۴۱ ھ میں خلافت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے سپرد کر دی تو اس کے بعد آپ کے دوست جب آپ کو عار المسلمین کے نام سے پکارتے تو آپ فرمایا کرتے کہ عار (شرمندگی) نار (دوزخ) سے بہتر ہے۔ ایک شخص نے آپ سے کہا کہ اے مسلمانوں کے ذلیل کرنے والے تجھ پر سلام ہو‘ تو آپ