تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اورباہمی تفاخر کی جانب بھی زیادہ مائل ہو گئے تھے‘ فخر و تعلی کے لیے بہادری اور سخاوت دو مضمون بہت دلچسپ تھے‘ بے کاری اورشاعری نے ان کو عشق بازی اور ان کے امراء کو شراب خوری کی طرف بھی متوجہ کر دیا تھا‘ بہادری اور سخاوت نے ان کو اعلیٰ درجہ کا مہمان نواز اور قول و قرار کا پکا بنا کر مستحق تکریم بنا دیا تھا‘ جوا‘ تیر اندازی‘ مشاعرے‘ مفاخرت‘ مسابقت وغیرہ ان کے دل بہلانے کے مشاغل تھے‘ غرض کہ عرب والوں کے اخلاق پر ملک عرب اور اس کی آب و ہوا نے بے ساختہ طور پر مرتب کر دئیے تھے۔ عرب بائدہ کی طرف سیدنا ہود علیہ السلام سیدنا صالح علیہ السلام وغیرہ کئی نبی مبعوث ہوئے اور ان انبیاء کی نافرمانی کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ تمام طبقہ ہلاک و برباد ہوا‘ دوسرے طبقہ‘ یعنی قحطانی عربوں کی طرف بھی بعض ہادی مبعوث ہوئے‘ اور اہل عرب بہت کم ان کی طرف متوجہ ہو سکے‘ چنانچہ نافرمانیوں اور سر کشیوں کی پاداش میں بار بار ان پر بھی ہلاکتیں وارد ہوئیں‘ اس ملک کے باشندوں کی سر کشی و آزاد مزاجی نے ان کو تعلیمات انبیاء سے بھی زیادہ مستفیض نہ ہونے دیا‘ سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور سیدنا اسماعیل علیہ السلام پر بھی اس ملک کے تھوڑے سے آدمی ایمان لائے تھے‘ دین و مذہب کے معاملہ میں ان کے فخر نسب اور خود ستائی نے ان کو اپنے نسبی بزرگوں کی مدح سرائی پر متوجہ کر کے بآسانی مشاہیر پرستی پر آمادہ کر کے اور بالآخر انہیں کے ناموں کے بتوں کی پوجا کا عادی بنا دیا تھا‘ بت پرستی نے ان کو اوہام پرستی اور عجیب عجیب حماقتوں میں مبتلا کر دیا تھا۔ جب قحطانی قبائل کا زور ملک میں کم ہونے لگا اور بنی اسماعیل یا عدنانی قبائل نے زور پکڑنا شروع کیا تو قبیلہ خزاعہ کی مکہ پر چڑھائی اور قبیلہ جرہم کی شکست نے عدنانی قبائل کو اطراف ملک میں پریشان و آوارہ کر کے حجاز میں بنی اسماعیل کے ابھرتے ہوئے زور کو سخت صدمہ پہنچایا‘ اور نتیجہ یہ ہوا کہ ملک کے ہر حصہ اور ہر صوبہ میں عدنانی و قحطانی قبائل ایک دوسرے کے ہمسر و مد مقابل نظر آنے لگے اور اس طرح تمام جزیرہ نمائے عرب میں آزاد و مطلق العنان چھوٹے چھوٹے قبائل کے سوا کوئی بھی بڑی‘ اور قابل تذکرہ حکومت باقی نہ رہی۔ اگرچہ ملک عرب کی بڑی بڑی سلطنتیں بھی طائف الملوکی سے زیادہ حیثیت نہ رکھتی تھیں اور کسی عربی بادشاہ کی حکومت اپنی رعایا پر ایسی بھی نہ تھی کہ جیسی کہ فارس کے کسی معمولی سے جاگیر دار یا اہل کار کی باشندگان فارس پر ہوتی تھی۔ تاہم اس طائف الملوکی اور قبائل کی آزادی کے زمانہ میں ملک عرب کے اندر بدتمیز یوں‘ ناہنجاریوں ‘ بد اخلاقیوں نے اور بھی زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ ترقی کی اور یہ ترقی اپنی پوری تیز رفتاری اور زبردست طاقت کے ساتھ اس وقت تک جاری رہی جب تک کہ اس تاریک تر ملک عرب میںآفتاب اسلام طلوع ہوا۔ اہل عرب کی بڑی تعداد خانہ بدوشی کی حالت میں رہتی تھی اور بہت ہی تھوڑے لوگ تھے جو قصبوں اور آبادیوں میں مستقل سکونت رکھتے تھے‘ اہل عرب کو اپنے نسب کے سلسلے یاد اور محفوظ رکھنے کا بہت شوق تھا‘ آباء و اجداد کے ناموں اور کاموں کو وہ فخریہ بیان کرتے اور اسی ذریعہ سے لڑائیوں میں جوش اور بہادری دکھانے کا شوق پیدا ہوتا تھا‘ ملک کی آب و ہوا کا اثر تھا یا نسب دانی کے شوق کا نتیجہ تھا کہ اہل عرب کی قوت حافظہ بہت زبردست تھی کہ کئی کئی سو اشعار کے قصیدے ایک دو مرتبہ سن کر