تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
دیا‘ کیونکہ وہ اس فعل کو برا جانتے تھے‘ جب ان کی سمجھ میں یہ بات آ گئی‘ کہ خلافت کے معاملہ میں کسی رشتہ داری کو کوئی دخل نہیں ہے‘ بلکہ اس کے لیے اور ضروری باتیں قابل لحاظ ہیں‘ اور سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد خلافت کے مستحق تھے‘ تو خود بخود آ کر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت ہو گئے‘ اور بیعت ہونے کے بعد وہی سب سے زیادہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے معین و مددگار اور دل سے فرماں بردار تھے۔ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ اپنے عہد خلافت میں سب سے زیادہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے مشوروں کی قدر کرتے‘ اور اعاظم امور میں عموماً ان ہی کی رائے کو قابل عمل جانتے تھے۔ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو بھی انہوں نے ہمیشہ سچے اور اچھے مشورے دیے‘ اور اس بات کی مطلق پروانہ کی کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ ان کے مشورے پر عمل کرتے ہیں یا دوسرے کی بات مانتے ہیں‘ انہوں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے بعض کاموں کو قابل اعتراض پایا تو بلا تائل ان پر اعتراض بھی کیا۔ لوگوں نے سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے خلاف صدائے احتجاج بند کی تو جہاں تک ان کے نزدیک یہ احتجاج جائز تھا‘ وہاں تک انہوں نے اس کو اطمینان کی نظر سے دیکھا اور جس قدر حصہ انہوں نے جائز نہ سمجھا اسی قدر اس کی مخالفت کی اور روکنا چاہا‘ مدینہ منورہ میں جب بلوائیوں کا زور و شور دیکھا‘ اور ناشدنی علامات ظاہر ہوئے‘ تو انہوں نے چالاکی اور چالبازی کے ساتھ اپنی پوزیشن صاف دکھانے کے لیے کوئی تدبیر نہیں کی بلکہ صرف اپنی پاک طینتی اور صاف باطنی پر مطمئن رہے۔ شہادت عثمانی رضی اللہ عنہ کے بعد جب لوگوں نے ان کے ہاتھ پر بیعت کرنا چاہی تو چونکہ وہ اب اپنے آپ کو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد سب سے زیادہ اس عہدہ جلیلہ کا مستحق سمجھتے تھے‘ لہذا انہوں نے کسی کسر نفسی اور تکلف کو کام میں لانے اور انکار کرنے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی۔ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے خلیفہ منتخب ہونے کے وقت ان کو توقع تھی کہ مجھ کو خلیفہ منتخب کیا جائے گا لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی اس احتیاط نے کہ خلافت اسلامی میں کسی رشتہ داری کو قطعاً کوئی دخل نہیں ہونا چاہیے‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی قابلیت کو سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے مقابلہ میں مؤخر کر دیا‘ تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے اقرار پر ثابت قدم رہنا ضروری سمجھا‘ اور بلا اظہار مخالفت بیعت عثمانی میں داخل ہو گئے۔ غرض سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے تمام کاموں سے آفتاب نصف النہار کی طرح یہ امر ثابت ہے کہ وہ جس بات کو حق اور سچ جانتے تھے‘ اس کے حق اور سچ کہنے میں کسی مصلحت اور پالیسی کی وجہ سے تامل کرنا ہرگز ضروری نہ سمجھتے تھے‘ ان کا چہرہ ان کے قلب کی تصویر اور ان کا ظاہر ان کے باطن کا آئینہ تھا‘ وہ ایک شمشیر برہنہ تھے‘ اور حق کو حق کہنے میں کبھی نہ چوکتے تھے‘ اگر ان کی جگہ کوئی دوسرا شخص ہوتا تو وہ اپنے آپ کو قتل عثمان رضی اللہ عنہ کے وقت بہت کچھ بچا کر رکھتا اور بیعت خلافت کے وقت بڑی بڑی احتیاطیں عمل میں لاتا‘ اسی طرح بیعت خلافت کے بعد عام افواہوں کے اثر کو زائل کرنے اور بنو امیہ کی مخالفانہ کوششوں کو ناکام رکھنے کی غرض سے محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ اور مالک اشتر وغیرہ چند بلوائی