تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کیا‘اور اپنے رشتہ داروں میں سے ایک شخص وردان نامی کو ابن ملجم کے ساتھ مقرر کیا کہ وہ ابن ملجم کی مدد کرے۔ آخر مقررہ تاریخ یعنی ۱۶ رمضان المبارک جمعہ کا دن آ پہنچا‘ اور ابن ملجم‘ شبیب بن بجرہ اور وردان تینوں پچھلی رات سے مسجد کوفہ میں آئے‘ اور دروازہ کے قریب چھپ کر بیٹھ گئے‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ لوگوں کو حسب عادت نماز کے لیے آوازیں دیتے ہوئے مسجد میں داخل ہوئے‘ سب سے پہلے وردان نے بڑھ کر تلوار کا وار کیا‘ مگر اس کی تلوار دروازہ کی چوکھٹ یا دیوار پر پڑی‘ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ آگے بڑھ گئے‘ ابن ملجم نے فوراً آگے لپک کر آپ کی پیشانی پر تلوار کا ہاتھ مارا جو بہت کاری پڑا‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے زخم کھا کر حکم دیا کہ ان کو پکڑو‘ لوگ نماز کے لیے مسجد میں آ چکے تھے‘ یہ حکم سنتے ہی دوڑ پڑے‘ وردان اور شبیب دونوں مسجد سے نکل کر بھاگے‘ مگر ابن ملجم مسجد سے باہر نہ نکل سکا وہ مسجد ہی کے ایک گوشہ میں چھپا اور گرفتار کر لیا گیا‘ شبیب کو ایک شخص حضرمی نے پکڑا‘ مگر وہ چھوٹ کر بھاگ گیا اور ہاتھ نہ آیا وردان بھاگ کر اپنے گھر کے قریب پہنچ چکا تھا کہ لوگوں نے جا لیا اور وہیں قتل کر دیا۔ ابن ملجم گرفتار ہو کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے سامنے پیش کیا گیا‘ آپ نے حکم دیا کہ اگر میں اس زخم سے مر جائوں تو تم بھی اس کو قتل کر دینا اور اگر میں اچھا ہو گیا تو خود جو مناسب سمجھوں گا کروں گا‘ پھر آپ نے بنو عبدالمطلب کو وصیت کی کہ میرے قتل کو مسلمانوں کی خوں ریزی کا بہانہ نہ بنانا‘ صرف اسی ایک شخص کو جو میرا قاتل ہے قصاص میں قتل کر دینا۔ پھر سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ اپنے بیٹے کو مخاطب کر کے فرمایا‘ کہ اے حسن رضی اللہ عنہ اگر اس زخم کے صدمہ سے میں مر جائوں تو تم بھی اس کی تلوار سے ایسا ہی ایک وار کرنا کہ اس کا کام تمام ہو جائے اور مثلہ ہرگز نہ کرنا کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مثلہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔ ابن ملجم کی تلوار کا زخم سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی کنپٹی تک پہنچا تھا اور تلوار کی دھار دماغ تک اتر گئی تھی‘ مگر آپ جمعہ کے دن تک زندہ رہے‘ ہفتہ کے روز ۱۷ رمضان المبارک کو آپ نے وفات پائی‘ آپ کے وفات پانے سے پیشتر جندب بن عبداللہ نے آ کر عرض کیا کہ آپ ہم سے جدا ہو جائیں یعنی وفات پا جائیں تو کیا ہم سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کر لیں‘ آپ نے فرمایا کہ میں اس کے متعلق کچھ نہیں کہتا‘ تم جو مناسب سمجھنا کرنا۔ پھر حسنین کو بلا کر فرمایا کہ میں تم کو خدائے تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرنے اور دنیا میں مبتلا نہ ہونے کی وصیت کرتا ہوں‘ تم کسی چیز کے حاصل نہ ہونے پر افسوس نہ کرنا‘ ہمیشہ حق بات کہنا‘ یتیموں پر رحم اور بے کسوں کی مدد کرنا‘ ظالم کے دشمن اور مظلوم کے مددگار رہنا‘ قرآن شریف پر عامل رہنا‘ اور حکم خدا کی تعمیل میں ملامت کرنے والوں کی ملامت سے نہ ڈرنا۔ پھر محمد بن الحنفیہ سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ میں تم کو بھی ان ہی باتوں کی اور دونوں بھائیوں کی تعظیم مدنظر رکھنے کی وصیت کرتا ہوں‘ ان کا حق تم پر زیادہ ہے‘ ان کی منشاء کے خلاف تم کو کوئی کام نہیں کرنا چاہیے‘ حسنین رضی اللہ عنہ کی جانب مخاطب ہو کر فرمایا کہ تم کو بھی محمد بن الحنفیہ کے ساتھ ہمیشہ حسن سلوک اور