تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
العاص رضی اللہ عنہ حاکم مصر کو قتل کرے‘ اور یہ تینوں قتل ایک ہی تاریخ اور ایک ہی وقت میں وقوع پذیر ہوں‘ چنانچہ ۱۶ رمضان المبارک یوم جمعہ نماز فجر کا وقت مقرر ہوا‘ تینوں آدمی کوفہ‘ دمشق اور مصر کی طرف روانہ ہو گئے۔ جب رمضان المبارک کی مقررہ تاریخ آئی‘ تو برک بن عبداللہ تمیمی نے دمشق کی مسجد میں داخل ہو کر جب کہ امیر معاویہ نماز فجر کی امامت کر رہے تھے تلوار کا ایک ہاتھ مارا اور یہ سمجھ کر کہ تلوار کا ہاتھ کاری لگا ہے بھاگا‘ لیکن گرفتار کر لیا گیا‘ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ زخمی تو ہوئے مگر زخم مہلک نہ تھا‘ چند روز کے علاج معالجہ سے اچھا ہو گیا‘ برک کو ایک روایت کے مطابق اسی وقت اور دوسری روایت کے موافق کئی برس کے بعد قید رکھ کر قتل کیا گیا‘ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس کے بعد مسجد میں اپنے لیے محفوظ جگہ بنوائی‘ اور پہرہ بھی مقرر کیا۔ اسی مقرر تاریخ اور مقررہ وقت میں عمروبن بکر نے مصر کی مسجد میں نماز فجر کی امامت کرتے ہوئے خارجہ بن ابی حبیبہ بن عامر کو عمروبن العاص رضی اللہ عنہ سمجھ کر تلوار کے ایک ہی وار میں قتل کر دیا‘ اس روز اتفاقاً عمروبن العاص رضی اللہ عنہ بیمار ہو گئے تھے‘ اور انہوں نے اپنی جگہ خارجہ بن حبیبہ ایک فوجی افسر کو نماز پڑھانے کا حکم دیا تھا‘ عمروبن بکر نے سمجھا کہ یہی عمروبن بن العاص رضی اللہ عنہ ہیں اور ان کو قتل کیا۔ اسی روز کوفہ میں عبدالرحمن بن ملجم نے نماز فجر کے وقت مسجد میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ پر حملہ کیا‘ اور اس زخم کے صدمہ سے دو روز کے بعد ۱۷ رمضان المبارک ۴۰ ھ کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ شہید ہوئے۔ تفصیل اس حادثہ جانکاہ کی یہ ہے کہ عبدالرحمن بن ملجم کوفہ میں آ کر اپنے دوستوں سے ملا‘ مگر کسی پر اپنے ارادہ کو ظاہر نہ کیا‘ آخر خوب سوچ سمجھ کر اپنے ایک دوست شبیب بن بجرۃ اشجعی پر اپنا راز ظاہر کیا اور اس سے امداد چاہی اور کہا کہ ہم کو مقتولین نہروان کے عوض سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو قتل کرنا چاہیے‘ اول تو شبیب نے اس ارادہ سے باز رکھنا چاہا‘پھر کچھ متامل ہوا‘ اور آخر کار ابن ملجم کے کام میں امداد کرنے پر آمادگی ظاہر کی۔ قبیلہ تمیم کے دس آدمی جو خارجی ہو کر لشکر خوارج میں شامل تھے‘ جنگ نہروان میں مقتول ہوئے تھے‘ ان مقتولین کے عزیزوں اور رشتہ داروں کو جو کوفہ میں رہتے تھے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے عناد اور ملال تھا۔ ابن ملجم ان لوگوں سے اکثر ملتا اور اکثر ان کے گھروں میں آتا جاتا رہتا تھا‘ اس نے ایک نہایت حسین و جمیل عورت دیکھی جس کا نام قطام تھا‘ اس عورت کا باپ اور بھائی دونوں انہیں دس مقتولین میں شامل تھے‘ ابن ملجم نے قطام کے پاس شادی کا پیغام بھیجا قطام نے کہا کہ پہلے مہر ادا کر دو تو میں نکاح کے لیے تیار ہوں‘ جب اس نے مہر کی مقدار دریافت کی گئی تو اس نے کہا کہ تین ہزار درہم‘ ایک لونڈی‘ ایک غلام اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا کٹا ہوا سر میرا مہر ہے‘ ابن ملجم تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی قتل کی نیت سے آیا ہی تھا‘ اس نے کہ میں صرف آخری شرط پوری کر سکتا ہوں‘ باقی شرائط کی بجا آوری سے اس وقت مجبور ہوں۔ قطام نے کہا کہ اگر تم آخری شرط کو پوری کر دو‘ تو میں باقی چیزوں کو خود چھوڑتی ہوں‘ ابن بلجم نے کہا کہ اگر تو چاہتی ہے کہ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے قتل پر قادر ہو جائوں تو اس راز کو کہیں فاش نہ کرنا‘ قطام نے راز کی حفاظت کا وعدہ