تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ضرورت تھی‘ اب جب کہ اس کا راستے ہی میں انقال ہو گیا‘ تو ہم تم ہی کو مصر کی حکومت کے لیے بہتر شخص سمجھتے ہیں‘ تم کو چاہیے کہ دشمنوں کے مقابلہ میں جرات و استقلال سے کام لو‘ اس خط کے جواب میں محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ نے لکھا کہ میں آپ کا تابع فرمان ہوں اور آپ کے دشمنوں سے لڑنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتا ہوں۔ یہ واقعات حکمین کے فیصلہ سنانے سے پہلے وقوع پذیر ہو چکے تھے‘ جب مقام اذرح میں حکمین کے فیصلے کا اعلان ہو گیا‘ تو اہل شام نے سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو خلیفہ تسلیم کر کے ان کے ہاتھ پر بیعت کر لی‘ اس سے ان کی قوت و شوکت میں پہلے سے اضافہ ہو گیا‘ اور انہوں نے معاویہ بن حدیج سے خط و کتابت کر کے اس جماعت کی ہمت افزائی کی جو محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ سے برسر پر خاش تھی‘ انہوں نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے اعانت و امداد طلب کی‘ یہی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا منشا تھا‘ چنانچہ انہوں نے عمروبن العاص رضی اللہ عنہ کو چھ ہزار کی جمعیت کے ساتھ مصر کی طرف روانہ کیا‘ اور ایک خط بھی محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کے نام لکھ دیا‘ عمروبن العاص رضی اللہ عنہ نے مصر کے قریب پہنچ کر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا خط معہ اپنے خط کے محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا‘ محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ نے یہ دونوں خط سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس کوفہ میں بھیج دئیے۔سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو جمع کر کے بہت کچھ ترغیب دی‘ مگر دو ہزار سے زیادہ آدمی مصر کی مہم کے لیے تیار نہ ہوئے‘ آخر ان ہی دو ہزار کو مالک بن کعب کی سرداری میں مصر کی جانب روانہ کیا۔ادھر عمروبن العاص رضی اللہ عنہ کے مقابلہ پر محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ نے دو ہزار کی جمعیت کنانہ بن بشر کی سرداری میں روانہ کر دی تھی‘ کنانہ بن بشر لشکر شام کے مقابلہ میں شہید ہو گئے‘ ان کے ہمراہی کچھ مارے گئے‘ کچھ ادھر ادھر بھاگ گئے۔ اس شکست کا حال سن کر محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ نے خود میدان جنگ کا قصد کیا‘ لیکن ان کے ہمرائیوں پر اہل شام کا کچھ ایسا رعب طاری ہوا کہ وہ بغیرلڑے ان کا ساتھ چھوڑ کر علیحدہ ہو گئے‘ محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ اپنے آپ کو تنہا پا کر میدان جنگ سے واپس آ کر جبلہ بن مسروق کے مکان میں پناہ گزیں ہوئے‘ لشکر شام اور معاویہ بن حدیج کے ہمرائیوں نے آ کر جبلہ بن مسروق کے مکان کا محاصرہ کر لیا‘ محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ زندگی سے مایوس ہو کر نکلے اور دشمنوں کا مقابلہ کرتے ہوئے گرفتار ہوئے‘ معاویہ بن حدیج نے ان کو قتل کر کے ایک مردہ گدھے کی کھال میں بھر کر جلا دیا۔ اس حادثہ کی خبر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے جاسوس عبدالرحمن بن شبیب فزاری نے شام سے آ کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو سنائی‘ آپ نے اسی وقت مالک بن کعب کے واپس بلانے کے آدمی بھیجا‘ ادہر مالک بن کعب نے تھوڑا ہی راستہ طے کیا تھا کہ حجاج بن برک بن عبداللہ عنمی انصاری مصر سے آتے ہوئے راستے میں ملے‘ انہوں نے محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کے مارے جانے اور عمروبن العاص رضی اللہ عنہ کے مصر پر قابض ہونے کا حال سنایا‘ اتنے میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اہل کوفہ کو جمع کر کے ایک تقریر فرمائی اور ان کو ملامت کی کہ تمہاری ہی سستی اور غفلت کے سبب مصر کا ملک ہاتھ سے جاتا رہا‘ مگر اس تقریر کو سن کر بھی اہل کوفہ خاموش