تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
وقت اعلان کرا دیا کہ فریق مخالف کو پانی سے نہ روکا جائے اور پانی کی تکلیف نہ دی جائے‘ اسی طرح یہ ہنگامہ بھی مشتعل ہو کر جلد فرو ہو گیا۔۱؎ اس کے بعد دو دن تک دونوں لشکر بلا جدال و قتال خاموشی کے ساتھ ایک دوسرے کے مقابل پڑے رہے‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس حجاز و یمن اور عرب کے مختلف حصوں‘ نیز ہمدان وغیرہ ایرانی صوبوں سے بھی جمیعتیں آ گئی تھیں‘ اور کل تعداد سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر کی نوے ہزار تھی۔ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس کل تعداد اسی ہزار آدمیوں کی تھی ۲؎ ان دونوں لشکروں کے سپہ سالار اعظم سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ تھے‘ فوج کے بڑے بڑے حصوں کی سرداریاں اس طرح تقسیم ہوئی تھیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں سواران کوفہ پراشتر‘ سواران بصرہ پر سہل بن حنیف‘ کوفہ کی پیادہ فوج پر سیدنا عمار بن یاسر بصرہ کی پیادہ فوج پر قیس بن سعد بن عبادہ افسر تھے‘ اور ہاشم بن عتبہ کو لشکر کا علم دیا گیا تھا‘ باقی قبائل اور صوبوں کی جماعت کے اپنے اپنے الگ الگ افسر اور علم تھے۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے لشکر میں میمنہ کی سرداری ذوالکلاح حمیری کو‘ میسرہ کی حبیب بن مسلمہ کو‘ مقدمہ کی ابوالاعور سلمی کو سپرد ہوئی تھی‘ سواران دمشق پر عمروبن العاص رضی اللہ عنہ ‘ پیادہ فوج پر مسلم بن عقبہ ۱؎ پانی پر جھگڑے کی یہ روایت قابل اعتماد نظر نہیں آتی‘ دریائے فرات کوئی تالاب نہیں تھا کہ اس پر ایک فریق قابض ہو جاتا تو دوسرے کے لیے گنجائش نہ ہی رہتی‘ یہ ہزارہا میل لمبا ہے‘ اورہر فریق اپنی جانب سے بلا توقف پانی لے سکتا تھا۔ ۲؎ فریقن کی اسی تعداد پر مورخین کا اتفاق نہیں ہے‘ بعض نے یہی اور بعض نے اس سے مختلف تعداد لکھی ہے۔ سردار مقرر کئے گئے تھے‘ ان کے علاوہ اور چھوٹے چھوٹے حصوں پر عبدالرحمن بن خالد‘ عبیداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ‘ بشیر بن مالک کندی‘ وغیرہ افسر مقرر ہوئے تھے۔ دونوں کی خاموشی کے بعد تیسرے دن یکم ذی الحجہ ۳۶ ھ کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بشیر بن عمروبن محصن انصاری رضی اللہ عنہ ‘ سعید بن قیس‘ اور شبث بن ربعی تمیمی کا ایک وفد سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا‘ کہ ان کو سمجھائیں‘ اور اطاعت قبول کرنے پر آمادہ کریں‘ یہ لوگ جب امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پہنچے‘ تو اول بشیر بن عمرو رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے معاویہ رضی اللہ عنہ تم مسلمانوں کی جماعت میں تفریق پیدا نہ کرو‘ اور خوں ریزی کا موقع آپس میں نہ آنے دو۔ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ تم نے اپنے دوست علی رضی اللہ عنہ کو بھی نصیحت کی یا نہیں‘ بشیر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ وہ سابق بالاسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے قریبی رشتہ دار ہونے کی وجہ سے خلافت و امارت کے زیادہ حق دار ہیں‘ تم کو چاہیے کہ ان کی بیعت اختیار کر لو‘ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ یہ کسی طرح ممکن نہیں کہ ہم خون عثمان رضی اللہ عنہ کا مطالبہ چھوڑ دیں‘ شبث بن ربعی نے کہا اے معاویہ خون عثمان رضی اللہ عنہ کے مطالبہ کے متعلق ہم تمہارے اصل مدعا کو خوب سمجھتے ہیں‘ تم نے اسی لیے عثمان رضی اللہ عنہ کی مدد کرنے میں تاخیر کی تھی کہ وہ شہید ہو جائیں‘ اور تم ان کے خون