تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
نہیں سمجھا گیا‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو سیدنا عبداللہ بن جعفر نے رضی اللہ عنہ یہ مشورہ دیا کہ قیس بن سعد رضی اللہ عنہ کو حکم دیا جائے کہ وہ سکوت اختیار کرنے والوں سے لڑیں‘ اور ان کو بیعت کرنے کے لیے مجبور کریں‘ اس طرح آزاد اور خاموش نہ رہنے دیں‘ چنانچہ یہ حکم قیس بن سعد رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیا گیا‘ قیس بن سعد رضی اللہ عنہ نے اس حکم کی تعمیل کو غیر ضروری اور مضر خیال کر کے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ جو لوگ فی الحال خاموش ہیں وہ آپ کے لیے نقصان رساں نہیں ہیں لیکن اگر ان کے ساتھ اعلان جنگ کر دیا گیا تو وہ سب کے سب آپ کے دشمنوں سے جا ملیں گے اور بے حد نقصان رساں ثابت ہوں گے‘ مناسب یہ ہے کہ ان کو اسی حال پر رہنے دیا جائے اس خط کے پہنچنے پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے مشیروں نے ان کو یقین دلایا کہ قیس بن سعد ضرور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے ساز باز رکھتے ہیں‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اس بات کے ماننے میں متامل تھے‘ اور قیس بن سعد رضی اللہ عنہ کو مصر کے لیے ضروری سمجھتے تھے‘ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو جب یہ معلوم ہوا‘ کہ قیس کی نسبت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے دربار میں شبہ کیا جا رہا ہے‘ تو انہوں نے علانیہ اپنے دربار میں قیس بن سعد رضی اللہ عنہ کی تعریفیں بیان کرنی شروع کر دیں اور لوگوں سے کہنے لگے کہ قیس ہمارے طرفدار ہیں‘ ان کے خطوط بھی ہمارے پاس آتے رہتے ہیں‘ وہ ضروری باتوں کی ہم کو اطلاع بھی دیتے ہیں‘ کبھی لوگوں کے مجمع میں ذکر کرتے کہ قیس بن سعد رضی اللہ عنہ نے مصر میں خون عثمان رضی اللہ عنہ کا مطالبہ کرنے والوں کے ساتھ بڑے بڑے احسانات کئے ہیں اور ان کو بڑی عزت کے ساتھ رکھتے ہیں۔ دمشق سے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی ان باتوں کا حال سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو ان کے جاسوسوں نے بلاتوقف لکھا‘ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے قیس بن سعد رضی اللہ عنہ کو مصر کی امارت سے فوراً معزول کر کے ان کی جگہ محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کو روانہ کیا‘ محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ نے مصر میں پہنچ کر اپنی امارت اور قیس بن سعد رضی اللہ عنہ کی معزولی کا فرمان دکھایا‘ تو قیس بہت ملول و افسردہ ہوئے اور مصر سے روانہ ہو کر مدینہ منورہ پہنچے۔ مدینہ منورہ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے وہاں سے تشریف لے آنے کے بعد کسی کی حکومت نہ تھی‘ وہاں بعض ایسے اشخاص بھی موجود تھے جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ برحق تسلیم کرتے‘ اور ان کے ہر ایک حکم اور ہر ایک فعل کو واجب التعمیل و واجب الاقتدار یقین کرتے تھے‘ اور ایسے لوگ بھی بکثرت موجود تھے جو سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے قاتلوں سے قصاص نہ لیے جانے کے سبب سخت بے چین اور اس معاملہ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی ڈھیل اور درگذر کو سخت قابل اعتراض سمجھتے‘ اور ان کو نشانہ ملامت بنانے سے ذرا نہ چوکتے تھے‘ قیس بن سعد رضی اللہ عنہ جب مدینہ پہنچے تو ان کے تعاقب ہی میں سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے مروان بن الحکم کو روانہ کیا‘ کہ جس طرح ممکن ہو‘ قیس بن سعد کو ترغیب دے کر لے آئو‘ مروان بن الحکم نے قیس بن سعد رضی اللہ عنہ کو اول سمجھایا‘ جب وہ نہ مانے تو تنگ کرنا شروع کیا‘ یہاں تک کہ وہ دق ہو کر مدینہ سے روانہ ہوئے‘ اور کوفہ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچ گئے‘ وہاں تمام حالات زبانی سنائے سیدنا علی رضی