تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
دمشق میں منبر پر رکھتے تھے‘ اور لوگ ان کو دیکھ دیکھ کر آہ و زاری کرتے تھے‘ شام کا صوبہ چونکہ ہر وقت قیصر روم کے حملوں کا مقام بن سکتا تھا‘ لہذا ملک شام میں پہلے ہی سے زبردست فوج ہمہ وقت موجود رہتی تھی‘ ان تمام لوگوں نے قسمیں کھائی تھیں‘ کہ جب تک خون عثمان رضی اللہ عنہ کا بدلہ نہ لے لیں گے‘ اس وقت تک فرش پر نہ سوئیں گے‘ اور ٹھنڈا پانی نہ پئیں گے۔ ملک عرب کے نامور اور بہادر لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے اور ان کی خاطر و مدارات بجا لانے میں بھی سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کمی نہ کرتے تھے‘ کام کے آدمی کو اپنے ساتھ ملانے اور اس کی دل جوئی کرنے میں ان سے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ ہوتا تھا‘ اپنے دعوے اور مطالبے کی معقولیت ثابت کرنے اور اپنے آپ کو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا وارث بتا کر مظلوم ظاہر کرنے سے بھی وہ غافل نہ تھے۔ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد ان کو ایک سال کی مہلت مل چکی تھی‘ جس میں سوائے ان تیاریوں کے ان کو اور کوئی کام نہ تھا‘ لیکن سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو اس عرصہ میں برابر مصروفیت در پیش رہی‘ اگرچہ کوفہ میں تشریف لانے کے بعد بظاہر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے دائرہ حکومت میں سوائے ایک صوبہ شام کے تمام ممالک اسلامیہ شامل تھے‘ لیکن ان کو ان اسلامی ممالک میں وہ اثر اور وہ اقتدار حاصل نہ ہوا جو فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے زمانے میں خلیفہ اسلام کو حاصل تھا‘ حجاز‘ یمن‘ عراق‘ مصر‘ ایران وغیرہ ہر جگہ ان کے فرماں برداروں کے ساتھ ہی ساتھ ایسے لوگ بھی برابر پائے جاتے تھے جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ پر علانیہ اعتراضات کرتے اور ان کے طرز عمل پر نکتہ چینی کرنے میں خوب سرگرم و مستعد پائے جاتے تھے‘ لہذا سیدنا علی رضی اللہ عنہ کسی صوبہ سے پوری پوری فوجی امداد حاصل نہیں کر سکتے تھے۔ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی حالت اس کے بالکل خلاف تھی‘ اگرچہ وہ صرف ملک شام پر تصرف رکھتے تھے‘ لیکن سارا کا سارا ملک ان کا ہم خیال وہم عنان تھا‘ اور تمام ملک میں ان کو پوری پوری قبولیت حاصل تھی‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان کو معرکہ آرائی کرنی پڑے گی اس کا اندازہ ان کو پہلے ہی سے ہو چکا تھا‘ لہذا سب سے بڑی تدبیر جو انہوں نے پیشتر سے کی یہ تھی‘ کہ مصر کی جانب سے حملہ آوری کے امکان کو دور کر دیا‘ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ قیس بن سعد رضی اللہ عنہ کی قوت و قابلیت سے بہت مرعوب تھے‘ ان کی خوش قسمتی سے ایک ایسی وجہ پیدا ہو گئی کہ وہ اپنے ارادے اور خواہش میں پورے کامیاب ہو گئے۔ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے قیس بن سعد رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ مظلوم شہید ہو گئے ہیں لہذا آپ کو مطالبہ قصاص میں میری مدد کرنی چاہیے‘ قیس بن سعد رضی اللہ عنہ نے جواباً لکھا کہ مجھ کو جہاں تک معلوم ہے سیدنا علی رضی اللہ عنہ قتل عثمانی رضی اللہ عنہ کی سازش میں ہرگز شریک نہ تھے‘ ان کے ہاتھ پر جب کہ لوگوں نے بیعت کر لی اور وہ خلیفہ مقرر ہو گئے تو پھر تم کو ان کا مقابلہ اور مخالفت نہیں کرنی چاہیے۔ اسی دوران میں قیس بن سعد رضی اللہ عنہ کا ایک مراسلہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بمقام کوفہ پہنچا اس کے اندر لکھا تھا کہ مصر کے اندر ابھی بہت سے لوگ خاموش ہیں ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا ہے‘ اور کسی قسم کی سختی کو مناسب