تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تھیں۔ ادھر اہل بصرہ کو اس بات کا یقین ہو گیا کہ جو خبریں ہم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی نسبت پہلے سنی تھیں کہ وہ اہل بصرہ کو قتل کر کے ان کے بیوی بچوں کو باندی غلام بنا لیں گے‘ وہ صحیح تھیں‘ غرض دس ہزار سے زیادہ مسلمان دونوں طرف مقتول ہوئے‘ اور آخر تک اصل حقیقت کسی کو معلوم نہ ہوئی‘ کہ یہ لڑائی کس طرح ہوئی‘ ہر شخص اپنے فریق مقابل ہی کو ظالم اور خطا کار سمجھتا رہا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ چونکہ خود لشکر کی سپہ سالاری فرما رہے تھے‘ لہذا ان کی طرف سے ایسے ایسے سخت حملے ہوئے کہ اہل جمل کو پسپا ہونا پڑا‘ اور سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کا جمل سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی حملہ آور فوج کی زد میں آ گیا‘ اس اونٹ کی مہار کعب کے ہاتھ میں تھی‘ وہی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کو مشورہ دے کر میدان جنگ کی طرف لائے تھے کہ شاید کوئی صلح کی صورت پیدا ہوجائے۔ جب سیدنا ام المومنین رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ حملہ آور فوج کسی طرح نہیں رکتی اور اونٹ کو بچانے کے لیے بصرہ والوں نے جو اول پسپا ہو گئے تھے از سر نو اپنے قدم جما لیے ہیں اور بڑے جوش و خروش کے ساتھ تلوار چل رہی ہے‘ تو انہوں نے کعب کو حکم دیا کہ تم اونٹ کی مہار چھوڑ کر قرآن مجید کو بلند کر کے آگے بڑھو‘ اور لوگوں کو قرآن مجید کے محاکمہ کی طرف بلائو اور کہو کہ ہم کو قرآن مجید کا فیصلہ منظور ہے تم بھی قرآن مجید کا فیصلہ مان لو‘ کعب نے آگے بڑھ کرجوں ہی اعلان کیا عبداللہ بن سبا کے لوگوں نے یک لخت ان پر تیروں کی بارش کی اور وہ شہید ہو گئے اس کے بعد اہل بصرہ میں اور بھی جوش پیدا ہوا اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کے اونٹ کے اردگرد لاشوں کے انبار لگ گئے‘ اہل بصرہ برابر قتل ہو رہے تھے‘ لیکن سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ کے اونٹ تک حریف کو نہیں پہنچنے دیتے تھے‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اس کیفیت کو دیکھ کر فوراً سمجھ لیا‘ کہ جب تک یہ ناقہ میدان جنگ میں نظر آتا رہے گا لڑائی کے شعلے کبھی فرونہ ہوں گے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کا اونٹ لڑائی اور کشت و خوں کا مرکز بنا ہوا تھا چاروں طرف سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کے کجادہ پر تیروں کی بارش ہو رہی تھی۱؎ اور وہ قاتلین عثمان پر بد دعا کررہی تھیں۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے آدمیوں کو حکم دیا کہ اس ناقہ کو کسی طرح مارو‘ جس وقت ناقہ گرا فوراً لڑائی ختم ہو جائے گی۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے اشتر جو بلوائیوں کا سرگروہ تھا‘ اس وقت میدان جنگ میں بڑی بہادری سے لڑ رہا تھا‘ اسی طرح اور بھی بلوائی سردار اور سبائی لوگ خدمت انجام دے رہے تھے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے پیہم کئی زبردست حملے ہوئے‘ مگر اہل جمل نے ہر ایک حملے کو بڑی ہمت و شجاعت کے ساتھ روکا‘ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اور مروان بن الحکم ان حملوں کو روکنے میں زخمی ہوئے‘ عبدالرحمن بن عتاب ‘ جندب بن زہیر‘ عبداللہ بن حکیم وغیرہ حضرات جمل کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہوئے‘ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے جسم پر ۷۲ زخم آئے تھے۔ ناقہ کی مہار یکے بعد دیگرے لوگ پکڑتے جاتے اور شہید ہوتے جاتے تھے‘ یہاں تک کہ سیکڑوں آدمی ناقہ کی مہار پر شہید ہو گئے‘ بالآخر اہل جمل نے ایسا سخت حملہ کیا کہ