تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
فخر و مباہات کریں گے‘ حتی کہ کوئی شخص ان کے پاس آ بیٹھے گا تو اس کو الگ بیٹھنے کا حکم دیں گے‘ یاد رکھو کہ اعمال حلقہ و مجلس سے تعلق نہیں رکھتے بلکہ ذات الٰہی سے۔ حسن خلق آدمی کا رہبر‘ عقل اس کی مدد گار اور ادب انسان کی میراث ہے‘ وحشت غرور سے بھی بدتر چیز ہے۔ ایک شخص نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ مجھے مسئلہ تقدیر سمجھا دیجئے‘ آپ نے فرمایااندھیرا راستہ ہے نہ پوچھ‘ اس نے پھر وہی عرض کیا‘ آپ نے فرمایا کہ وہ بحرعمیق ہے‘ اس میں غوطہ مارنے کی کوشش نہ کر‘ اس نے پھر وہی عرض کیا‘ آپ نے فرمایا یہ اللہ تعالیٰ کا بھید ہے تجھ سے پوشیدہ رکھا گیا ہے‘ کیوں اس کی تفتیش کرتا ہے‘ اس نے پھر اصرار کیا‘ تو آپ نے فرمایا کہ اچھا یہ بتا کہ خدائے تعالیٰ نے تجھ کو اپنی مرضی کے موافق بنایا ہے یا تیری فرمائش کے موافق‘ اس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مرضی کے موافق بنایا ہے‘ آپ نے فرمایا کہ بس پھر جیسے وہ چاہے تجھے استعمال کرے تجھے اس میں کیا چارہ ہے۔ ہر مصیبت کی ایک انتہا ہوتی ہے‘ اور جب کسی پر مصیبت آتی ہے تو وہ اپنی انتہا تک پہنچ کر رہتی ہے‘ عاقل کو چاہیے کہ جب مصیبت میں گرفتار ہو تو بھٹکتا نہ پھرے اور اس کے دفع کی تدبیریں نہ کرے‘ کیوں کہ اس سے اور زحمت ہوتی ہے۔ مانگنے پر کسی کو کچھ دینا تو بخشش ہے اور بغیر مانگے دینا سخاوت۔ عبادت میں سستی کا پیدا ہونا‘ معیشت میں تنگی کا واقع ہونا لذتوں میں کمی کا آ جانا گناہ کی سزا ہے۔ سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کو آپ نے آخری وقت نصیحت کی کہ سب سے بڑی تونگری عقل ہے اور سب سے زیادہ مفلسی حماقت ہے‘ سخت ترین وحشت غرور ہے‘ اور سب سے بڑا کرم حسن خلق ہے‘ احمق کی صحبت سے پرہیز کرو‘ وہ چاہتا تو ہے کہ تمہیں نفع پہنچائے‘ لیکن نقصان پہنچاتا ہے‘ جھوٹے سے پرہیز کرو‘ کیوں کہ وہ قریب ترین کو بعید اور بعید ترین کو قریب کر دیتا ہے‘ بخیل سے بھی پرہیز کرو‘ کیوں کہ وہ تم سے وہ چیز چھڑوا دے گا جس کی تم کو سخت احتیاج ہے‘ فاجر کے پاس بھی نہ بیٹھو وہ تمہیں کوڑیوں کے بدلے بیچ ڈالے گا۔ پانچ باتیں یاد رکھو‘ کسی شخص کو سوائے گناہ کے اور کسی چیز سے نہ ڈرانا چاہیے‘ سوائے اللہ تعالیٰکے اور کسی آدمی سے امید نہ رکھنی چاہیے‘ جو شخص کوئی چیز نہ جانتا ہو اس کے سیکھنے میں کبھی شرم نہ کرے‘ کسی عالم سے جب کوئی ایسی بات پوچھی جائے جس کو وہ نہ جانتا ہو‘ تو اسے بلا دریغ کہہ دینا چاہیے‘ کہ اللہ تعالیٰبہتر جانتا ہے‘ صبر اور ایمان میں وہی نسبت ہے جو سر اور جسم میں‘ جب صبر جاتا رہے تو سمجھو کہ ایمان جاتا رہا‘ جب سر ہی جاتا رہا تو جسم کیسے بچ سکتا ہے۔ فقیہ اس شخص کو کہنا چاہیے جو لوگوں کو اللہ تعالیٰسے نا امید نہ کرے اور گناہوں کی رخصت نہ دے‘ اور اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بے خوف نہ کر دے‘ قرآن شریف سے اعراض کرا کر کسی اورچیز کی طرف مائل نہ کر دے۔ انار کو اس پتلی سی جھلی کے ساتھ کھانا چاہیے جو دانوں کے درمیان ہوتی ہے کیوں کہ وہ معدہ میں جا کر غذا کو پکا دیتی ہے۔ ایک زمانہ ایسا آنے والا ہے کہ مومن ادنی غلام سے بھی زیادہ ذلیل ہوگا