تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
نقصان عظیم کے موجبات پہلے سے مرتب و مہیا ہو رہے تھے۔ عبداللہ بن سبا کی مسلم کش کوششوں کا سب سے زبردست پہلو یہ تھا کہ اس نے بنو امیہ کی مخالفت میں یک لخت اور یکایک تمام عرب قبائل کو برانگیختہ اور مشتعل کر دیا جس کے لیے اس نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی حمایت و محبت کو ذریعہ اور بہانہ بنایا۔ جن قبائل میں اس نے مخالفت بنو امیہ اور عداوت عثمان پیدا کرنی چاہی‘ یہ سب کے سب وہی لوگ تھے جو اپنی فتوحات پر مغرور اور اپنے کارناموں کے مقابلے میں قریش و اہل حجاز کو خاطر میں نہ لاتے تھے‘ لیکن سابق الاسلام نہ تھے‘ بلکہ نو مسلموں میں ان کا شمار تھا‘ عبداللہ بن سبا نے بڑی آسانی سے بنو امیہ کے سوا باقی اہل مدینہ کو سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی بدگوئی اور بنو امیہ کے۔ کی عام شکایات پر آمادہ کر دیا۔ پھر وہ بصرہ کوفہ‘ دمشق وغیرہ فوجی مرکزوں میں گھوما‘ جہاں اس کو سوائے دمشق کے ہر جگہ مناسب آب و ہوا اور موافق سامان میسر ہوئے‘ دمشق میں بھی اس کو کم کامیابی نہیں ہوئی کیوں کہ یہاں بھی اس نے سیدنا ابوذر غفاری والے واقعہ سے خوب فائدہ اٹھایا‘ آخر میں وہ مصر پہنچا اور تمام مرکزی مقاموں کے اندر جہاں وہ خود سامان فراہم کر آیا تھا مصر میں بیٹھے بیٹھے اپنی تحریک کو ترقی دی‘ مصر کو اس نے اپنا مرکز اس لیے بنایا کہ یہاں کا گورنر عبداللہ بن سعد خود مختاری میں تو دوسرے گورنروں سے بڑھا ہوا لیکن دقت نظر میں دوسروں سے کم اور رومیوں وغیرہ کے حملوں کی روک تھام کے خیال اور افریقہ و طرابلس وغیرہ کی حفاظت کی فکر میں اندرونی تحریکوں اور داخلی کاموں کی طرف زیادہ متوجہ نہیں ہو سکتا تھا‘ یہیں اس کو دو تین صحابی ایسے مل گئے جو بڑی آسانی سے اس کے ارادوں کی اعانت میں شریک و مصروف ہو گئے۔ اس نے بصرہ میں سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کی اور کوفہ میں سیدنا زبیر کی قبولیت کو بڑھا ہوا دیکھا‘ لیکن وہ جانتا تھا کہ تمام عالم اسلام میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی قبولیت ان دونوں حضرات سے بڑھ جائے گی‘ لہذا اس نے بصرہ‘ کوفہ ‘ دمشق کو بڑی آسانی سے چھوڑ دیا اور مصر میں بیٹھ کر اپنا کام اس طرح شروع کیا کہ بصرہ اور کوفہ والوں کی اس مخالفت کو ترقی دی جو ان کو بنو امیہ اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ پیدا ہو چکی تھی‘ لیکن مصر میں اس مخالفت کے پیدا کرنے اور اس کو ترقی دینے کے علاوہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی محبت اور ان کے مظلوم ہونے‘ حقدار خلافت ہونے‘ وصی ہونے وغیرہ کے خیالات کو شائع کیا‘ اس اشاعت میں بھی بڑی احتیاط سے کام لیا‘ اور سیدنا علی کے طرف داروں کی ایک زبردست جماعت بنا لینے میں کامیاب ہوا‘ عبداللہ بن سبا کی ان کارروائیوں نے بہت ہی جلد عالم اسلامی میں ایک شورش پیدا کر دی۔ اس شورش کے پیدا ہو جانے کے بعد صحابہ کرام سے وہ موقع جاتا رہا کہ وہ خود بنو امیہ کے راہ راست پر رکھنے کی کوشش میں کامیاب ہوتے‘ عبداللہ بن سبا کی شرارتوں میں غالباً سب سے پلید قسم کی شرارت یہ تھی کہ اس نے مدینہ منورہ سے سیدنا علی کی طرف سے فرضی خطوط کوفہ و بصرہ والوں کے پاس بھجوائے اور اس طرح اپنے آپ کو بھی سیدنا علی کا ایجنٹ یقین کرانے اور لوگوں کو دھوکا دینے میں خوب کامیاب ہوا‘ یہ اس کا ایسا فریب تھا کہ ایک طرف سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ شہید ہوئے‘ دوسری طرف آج تک لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ نعوذ باللہ سیدنا علی کے اشارے اور سازش سے سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ شہید کئے گئے‘ حالانکہ اس سے زیادہ غلط اور نا درست کوئی دوسری بات نہیں ہو سکتی‘ وہ یعنی عبداللہ بن سبانہ سیدنا عثمان کا