تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
علاقوں پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا‘ رومیوں نے مصر و اسکندریہ پر چڑھائیاں کیں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ رومیوں کو مسلمانوں نے شکست دے کر بھگایا‘ اور جزیرہ قبرص اور روڈس پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا‘ افریقہ کے رومی گورنر نے فوجیں جمع کر کے مصر کی اسلامی فوج کو دھمکانا چاہا‘ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ برقہ‘ طرابلس تک کا علاقہ مسلمانوں کے قبضہ میں آ گیا‘ اسی طرح ایشیائے کوچک کی رومی فوجوں نے بھی ہاتھ پائوں ہلانے چاہے‘ مسلمانوں نے ان کو قرار واقعی سزا دے کر آرمینیا و طفلس تک کے علاقے پر قبضہ کر لیا۔ غرض سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بہت کافی اور اہم فتوحات مسلمانوں کو حاصل ہوئی‘ اور حکومت اسلامیہ کے حدود پہلے سے بہت زیادہ وسیع ہو گئے‘ ایران و شام و مصر وغیرہ ملکوں میں سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے حکم کے موافق گورنروں نے سڑکیں بنوانے‘ مدرسے قائم کرنے تجارت و حرفت اور زراعت کو فروغ دینے کی کوششیں کیں‘ یعنی سلطنت اسلامیہ نے اپنی ظاہری ترقی کے ساتھ ہی معنوی ترقی بھی کی‘ لیکن یہ تمام ترقیات زیادہ تر خلافت عثمانی کے نصف اول یعنی ابتدائی چھ سال میں ہوئیں‘ نصف آخری یعنی چھ سال کے عرصہ میں اندرونی اور داخلی فسادات کی پیدائش اور نشوونما ہوتی رہی‘ اس سے پیشتر مسلمانوں کا مطمح نظر اور قبلہ توجہ اشاعت اسلام اور شرک شکنی کے سوا اور کچھ نہ تھا‘ لیکن اب وہ توجہ آپس کی مسابقت اور برادر افگنی میں بھی صرف ہونے لگی‘ بنو امیہ نے مدینہ منورہ میں اپنی تعداد اور اثر کو بڑھا لیا‘ اور اطراف و جوانب کے صوبوں اور ملکوں میں بھی ان کا اثر روز افزوں ترقی کرنے لگا۔ یہ ضروری نہ تھا کہ بنو امیہ کے اس طرز عمل کو دیکھ کر دوسرے مسلمان قبائل موافقت یا مخالفت میں بے سوچے سمجھے حصہ لینے لگتے اور قومی جانب داری کی آگ میں کود پڑتے بلکہ بنو امیہ کی غلط کاریوں کو محسوس کرنے کے بعد صحابہ کرام یعنی مہاجرین و انصار کی محترم جماعت اگر سہولت و معقولیت کے ساتھ لوگوں کو سمجھاتی اور اس فتنہ کو نشوونما پانے سے پہلے وبا دینے کی کوشش کرتی تو اصحاب نبوی کا اتنا اثر امت محمدیہ میں ضرور موجود تھا کہ ان بزرگوں کی کوشش صدا بصحرا ثابت نہ ہوتی‘ بنو امیہ نے اپنا اقتدار بڑھانے کی کوششیں شروع کیں‘ اس کا احساس صحابہ کرام کو کچھ عرصہ کے بعد ہوا اور جب احساس ہوا تو اسی وقت سے بھی علاج کی کوششیں شروع ہو کر کامیاب ہو سکتی تھیں‘ لیکن بد قسمتی اور سوء اتفاق سے امت مسلمہ کو ایک سخت و شدید ابتلاء میں مبتلا ہونا پڑا‘ یعنی عین اسی زمانے میں چالاک و عقل مند اور صاحب عزم و ارادہ یہودی عبداللہ بن سبا اسلام کی تخریب و مخالفت کے لیے آمادہ و مستعد ہو گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد مبارک میں بھی منافقوں کے ہاتھوں سے مسلمانوں کو بارہا ابتلاء میں مبتلا ہونا پڑا‘ اور اب عہد عثمانی میں بھی ایک منافق یہودی مسلمانوں کی ایذاء رسانی کا باعث ہوا‘ یہ فیصلہ کرنا دشوار ہے کہ عبداللہ بن ابی زیادہ خطرناک منافق تھا‘ یا عبداللہ بن سبا بڑا منافق تھا‘ لیکن یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ عبداللہ بن ابی کو اپنے شرارت آمیز منصوبوں میں کامیابی کم حاصل ہوئی اور نامرادی و ناکامی بیشتر اس کے حصہ میں آئی‘ لیکن عبداللہ بن سبا اگر خود کوئی ذاتی کامیابی حاصل نہ کر سکا تاہم مسلمانوں کی جمعیت کو وہ ضرور نقصان عظیم پہنچا سکا‘ کیوں کہ اس