تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مذکورہ قبائل میں سے کوئی بھی قبیلہ ایسا نہ تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی شرف صحبت سے فیض یاب ہوا ہو‘ ان میں سے اگر کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فیض صحبت پائے ہوئے تھا تو ایسے لوگوں کی تعداد و ’’الشاذ کالمعدوم‘‘ کے حکم میں تھی۔ یہ تمام قبائل جو اسلام کی جرار فوج ثابت ہوئے معصیت سوز ایمان اور مجنونانہ شیفتگیٔ اسلام میں قریشی اور حجازی صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے مرتبہ کو نہیں پہنچ سکتے تھے‘ مگر فاروق اعظم کی نگاہ اس قدر وسیع و عمیق تھی کہ ہر مسئلہ کی جزئیات تک ان کا احاطہ تھا‘ انہوں نے ایسا نظام قائم رکھا اور مہاجر و انصار کی سیادت کی ایسی حفاظت کی کہ ان کے عہد خلافت میں یہ ممکن ہی نہ ہوا کہ کوئی غیر‘ مہاجر یا انصار کی ہمسری کا خیال تک بھی لا سکے تمام مہاجرین و انصار کی حیثیت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ایک شاہی خاندان اور فاتح قوم کی تھی‘ فاروق اعظم نے ایک طرف بڑی کوشش اور احتیاط کے ساتھ اپنی فتح مند فوج اور صف شکن عربی سپاہیوں کے خصوصی سپاہیانہ اور جوانمردانہ جذبات کی حفاظت و نگرانی کی‘ حتی کہ شام کے خوش سواد شہروں اور سامان عیش رکھنے والی بستیوں میں‘ یا ان کے قریب بھی‘ عہد فاروقی میں اسلامی فوجوں کو قیام کرنے کا موقع نہیں دیا جاتا تھا‘ دوسری طرف انہوں نے نہایت ہی اعلیٰ تدبر اور انتہائی مآل اندیشی کے ساتھ جلیل القدر اور صاحب اقتدار صحابیوں کو صحبت عوام بلکہ صحبت عام سے اس خوبی کے ساتھ بچا کر رکھا کہ کسی کو بھی محسوس نہ ہونے پایا اور ان جلیل القدر اصحاب کرام کے رعب و عظمت کی ایک طرف حفاظت ہوئی‘ دوسری طرف ہمہ وقت ان کے گرد مدینہ منورہ میں نہ صرف ملک عرب بلکہ تمام دنیا کی منتخب اور با اقتدار و صاحب اثر جماعت موجود رہتی تھی۔ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں یہ باتیں رفتہ رفتہ یکے بعد دیگرے مٹتی گئیں‘ مذکورہ بالا عربی قبائل اپنے آپ کو مہاجرین و انصار اور قریشی و حجازی لوگوں کا ہمسر بلکہ ان سے بڑھ کر سمجھنے لگے‘ صحابہ کرام جو شاہی خاندان کا مرتبہ رکھتے تھے‘ دور دراز صوبوں میں منتشر ہو گئے‘ مدینہ منورہ کی جمعیت درہم برہم ہو گئی اور خود دارالخلافہ قوت کا مرکز نہ رہ سکا‘ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ساتھ ہی ساتھ قومی و قبائلی امتیازات تازہ ہونے لگے‘ ہر ایک قبیلے اور ہر ایک خاندان کی الگ الگ عصبیت قائم ہو گئی‘ آپس میں وہی عہد جاہلیت کی رقابتیں تازہ ہونے لگی اور اسلامی رشتہ اور دینی اخوت کا اثر قومی و خاندانی امتیازات پر فائق نہ رہ سکا‘ مہاجرین و انصار نو مسلموں کی کثرت کے اندر درخور ہونے کی وجہ سے اپنے اقتدار و عظمت کو قائم و باقی نہ رکھ سکے۔ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نرم مزاج تھے‘ حکومت و انتظام کے باقی رکھنے کے لیے تنہا نرم مزاجی ہی کافی نہیں ہو سکتی‘ بلکہ اس کے لیے طاقت و سختی کے اظہار کی بھی ضرورت ہوا کرتی ہے‘ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ایک طرف تو مسلمانوں کے دلوں میں مال و دولت اور عیش و راحت جسمانی کی قدر پیدا ہونے لگی‘ دوسری طرف خلیفہ وقت کا رعب و اقتدار دلوں سے کم ہونے لگا‘ اس حالت میںشہرت پسند اور جاہ طلب لوگوں کو اپنی اولوالعزمیوں کیاظہار اور اپنے ارادوں کے پورا کرنے کی کوششوں کا موقع ملنے لگا‘ قریشیوں اور حجازیوں میں جو اس قسم کے اولوالعزم اشخاص تھے‘ ان کو بڑی آسانی کے ساتھ نو مسلم قبائل کی حمایت اور فتح مند