تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اس کو معزول کرائے بغیر تو مدینہ سے ہرگز نہ جائیں گے۔ بلوائیوں کے ان سرداروں کے اصرار اور جرات کو دیکھ کر اور مناسب وقت سمجھ کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور بعض دوسرے اصحاب کرام نے سیدنا عثمان کی خدمت میں حاضر ہو کر مشورہ دیا کہ ان بلوائیوں کو مدینہ میں داخل ہونے سے پہلے ہی یہاں سے ٹال دو‘ اور ان کی ضد پوری کر دو‘ یعنی عبداللہ بن سعد کو مصر کی امارت سے معزول کر دو‘ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا کہ پھر کس کو مصر کا عامل تجویز کیا جائے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اور دوسرے صحابہ نے محمد بن ابی بکر کا نام لیا‘ وہ پہلے ہی سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے حامی اور عبداللہ بن سبا کے فریب میں آئے ہوئے تھے‘ سیدنا عثمان غنی نے محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کو مصر کی امارت کا فرمان لکھ کر دے دیا‘ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بلوائیوں کے سرداروں کو رخصت کیا اور کہا کہ جائو اب تمہاری ضد پوری ہو گئی‘ سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ نے بھی بہت کچھ سمجھا بجھا کر لوگوں کو رخصت کر دیا۔ تیسرے یا چوتھے روز کیا دیکھتے ہیں کہ باغیوں کی ساری کی ساری جماعت تکبیر کے نعرے بلند کرتی ہوئی مدینہ میں داخل ہوئی اور سیدنا عثمان کے گھر کا محاصرہ کر لیا‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم لوگ تو یہاں سے چلے گئے تھے‘ پھر کیسے واپس آ گئے‘ انہوں نے کہا کہ خلیفہ نے ایک خط اپنے غلام کے ہاتھ عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ کے پاس مصر کی جانب روانہ کیا تھا کہ ہم جب وہاں پہنچیں تو وہ ہم کو قتل کر دے‘ ہم نے وہ خط راستہ میں پکڑ لیا ہے‘ اس کو لے کر آئے ہیں‘ ساتھ ہی مصری و کوفی قافلے بھی واپس آ گئے ہیں کہ اپنے بھائیوں کے ساتھ رنج و راحت میں شرکت کریں۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ واللہ یہ تم لوگوں کی سازش ہے اور تمہاری نیت نیک نہیں ہے‘ ان لوگوں نے کہا خیر جو کچھ بھی ہو اس خلیفہ کو قتل کرنا ضروری ہے‘ آپ اس کام میں ہماری امداد کریں۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے برہم ہو کر فرمایا کہ میں بھلا تمہاری مدد کیسے کر سکتا ہوں‘ یہ سن کر ان لوگوں نے کہا کہ پھر آپ نے ہم کو لکھا کیوں تھا؟ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے کبھی تم کو کچھ بھی نہیں لکھا‘ یہ سن کر وہ آپس میں حیرت کے ساتھ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اس کے بعد مدینہ سے باہر مقام احجار الزیت میں تشریف لے گئے‘ اور بلوائیوں نے سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو تنگ کرنا شروع کیا۔ اب تک بلوائی لوگ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے پیچھے نمازیں پڑھتے تھے‘ اب انہوں نے ان کے پیچھے نماز پڑھنی چھوڑ دی اور دوسرے لوگوں کو بھی زبردستی سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھنے سے روکنا شروع کیا۔ سیدنا عثمان غنی نے یہ رنگ اور مدینہ کی گلیوں کو بلوائیوں سے پر دیکھ کر مختلف ممالک کے والیوں کو خطوط لکھے اور امداد طلب کی‘ یا یہ خبریں خود بخود ہی ان ممالک میں پہنچیں چنانچہ مصر‘ شام‘ کوفہ‘ بصرہ سے نیک دل لوگوں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے مدینہ کی طرف لوگوں کو روانہ ہونے اور خلیفہ وقت کی مدد کرنے کی ترغیب دی۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے حبیب بن مسلمہ فہری کو اور عبداللہ بن سعد نے معاویہ بن حدیج کو روانہ کیا‘ کوفہ سے قعقاع بن عمرو ایک جمعیت کے ساتھ روانہ ہوئے‘ اسی