تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اور سب کے سب مل کر مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئے‘ جب مدینہ منورہ تین منزل کے فاصلے پر رہ گیا تو وہ لوگ جو طلحہ کو خلیفہ بنانا چاہتے تھے آگے بڑھ کر ذوخشب میں ٹھہر گئے‘ جولوگ زبیر بن العوام کو خلیفہ بنانا چاہتے تھے مقام اعوص میں آ کر مقیم ہو گئے اور جو لوگ سیدنا علی کو خلیفہ بنانا چاہتے تھے وہ ذوالمروہ میں مقیم ہو گئے۔ طلحہ کے حامیوں میں زیادہ تعداد بصرہ کے لوگوں کی تھی‘ زبیر بن العوام کے طرف داروں میں زیادہ تعداد کوفہ کے لوگوں کی تھی‘ جو لوگ سیدنا علی کو خلیفہ بنانا چاہتے ان میں زیادہ تر مصر کے لوگ شامل تھے۔ زیاد بن النضر اور عبداللہ بن الاصم نے ان تمام بلوائیوں سے کہا کہ تم لوگ یہیں ٹھہرے رہو جلدی نہ کرو‘ ہم پہلے مدینہ میں داخل ہو کر اہل مدینہ کی حالت معلوم کر آئیں‘ کیوں کہ ہم کو معلوم ہوا ہے کہ مدینہ والوں نے بھی جنگی تیاری کی ہے‘ اگر یہ خبر صحیح ہے تو پھر ہم سے کچھ نہ ہو سکے گا‘ تمام بلوائی یہ سن کر خاموش ہو گئے‘ اور یہ دونوں مدینہ میں داخل ہوئے‘ مدینہ میں پہنچ کر یہ دونوں سیدنا علی‘ طلحہ‘ زبیر اور امہات المومنین سے ملے اور ان سے اپنے آنے کا مقصد بیان کیا‘ ان سبھوں نے ان کو ملامت کی اور واپس جانے کا حکم دیا۔ اس جگہ یہ بات خصوصیت سے قابل تذکرہ ہے کہ عبداللہ بن سبا کے جو آدمی مدینہ منورہ میں موجود تھے‘ انہوں نے سیدنا علی‘ سیدنا طلحہ‘ سیدنا زبیر اور امہات المومنین کے نام سے بہت سے خطوط لکھ لکھ کر کوفہ‘ مصرو بصرہ کے ان لوگوں کے نام روانہ کئے جو ان بزرگوں کے نام سے عقیدت رکھتے اور عبداللہ بن سبا کے دام تزدیر میں پورے اور یقینی طور پر نہیں پھنسے تھے‘ ان خطوط میں لکھا گیا تھا کہ سیدنا عثمان اب اس قابل نہیں رہے کہ ان کو تخت خلافت پر متمکن رہنے دیا جائے‘ مناسب یہی ہے اور امت مسلمہ کی فلاح اسی میں مضمر ہے کہ اس آنے والے ماہ ذی الحجہ میں اس ضروری کام کو سر انجام دے دیا جائے‘ یہی وجہ تھی کہ یہ تینوں قافلے مدینہ منورہ میں ہر قسم کا فساد مچانے اور کشت و خون کرنے کے ارادے سے آئے تھے‘ ورنہ تین ہزار آدمیوں کا کیا حوصلہ تھا کہ وہ اس مدینۃ النبی پر تصرف کرتے اور زبردستی اپنے ارادے پورے کرانے کے عزم سے آتے‘ جس مدینہ پر جنگ احزاب کے کثیر التعداد کفار دخل نہ پا سکے تھے ان بلوائیوں کو یہی شیری اور دلیری تھی کہ مدینہ کے اکابر سب ہماری حمایت پر آمادہ ہیں اور ہم جو کچھ کریں گے گویا ان ہی کے منشا کو پورا کریں گے۔ مدینہ میں جب ہر ایک بزرگ نے ان کی آمد کو نا مناسب قرار دیا‘ اور انہوں نے مدینہ میں کسی قسم کی مستعدی و جنگی تیاری بھی نہ دیکھی تو انہوں نے ان بزرگوں کی مخالفت رائے کو مصلحت اندیشی پر محمول کیا اور واپس جا کر تمام بلوائیوں کے نمائندوں اور سرداروں کو جمع کیا اور مدینہ والوںکی طرف سے اطمینان دلا کر یہ تجویز پیش کی سرداران مصر جن میں زیادہ تر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے حامی ہیں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس‘ بصرہ والے طلحہ کے پاس اور کوفہ والے زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس جائیں‘ چنانچہ یہ لوگ مدینہ میں داخل ہو کر تینوں حضرات کی خدمت میں الگ الگ حاضر ہوئے اور کہا کہ ہم سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی خلافت کو کسی طرح پسند نہیں کرتے‘ آپ ہم سے بیعت خلافت لے لیں‘ ہر ایک بزرگ سے بیعت لینے کی فرمائش کی گئی‘ اور ہر ایک نے سختی کے ساتھ انکار کیا‘ جب انکار دیکھا تو مصر والوں نے سیدنا علی سے کہا کہ ہمارے یہاں کا عامل عبداللہ بن سعد چونکہ ظالم ہے‘ ہم