تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اور بصرہ دونوں فوجی چھائونیاں یا لشکری لوگوں اور جنگ جو عربی قبائل کی بستیاں تھیں‘ اور دونوں مقاموں پر اسلامی طاقت اس قدر موجود تھی کہ تمام ایرانی صوبوں پر جیحون کے پارترکستان تک اور آرمینیا تک و جارجیہ کے صوبوں اور بحراخضر و بحراسود کے ساحلوں تک کوفہ و بصرہ کا رعب طاری تھا‘ فسطاط یا قاہرہ بھی فوجی چھائونی تھی اور مصر کے علاوہ طرابلس و فلسطین تک اس کا اثر پڑتا تھا‘ دمشق تمام ملک شام کا دارالصدر تھا‘ یہاں بھی مسلمانوں کی اس قدر فوجی طاقت موجود تھی کہ قیصر روم اس طاقت سے خائف تھا اور جب کبھی دمشقی فوج کا قیصری فوج سے مقابلہ ہوا‘ رومیوں نے ہمیشہ شکست ہی کھائی۔ عبداللہ بن سبا شروع ہی میں ان پانچوں مرکزوں کی اہمیت محسوس کر چکا تھا‘ اور اس کو معلوم تھا کہ ان کے سوا کوئی چھٹا مقام ایسا نہیں ہے جہاں مسلمانوں کی فوجی طاقت اور عربوں کی جنگ جو جمعیت ان میں سے کسی مقام کے برابر موجود ہو‘ لہذا وہ سب سے پہلے مدینہ منورہ میں آیا‘ یہاں سے وہ بصرہ پہنچا‘ بصرہ سے کوفہ‘ کوفہ سے دمشق اور دمشق سے مصر پہنچا۔ دمشق میں اس کو سیدنا امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی وجہ سے کم کامیابی ہوئی‘ باقی ہر جگہ وہ کامیابی کے ساتھ لوگوں کے خیالات کو خراب کرتا اور چھوٹی یا بڑی ایک جماعت بناتا اور اپنے راز دار و شریک کار ایجنٹ ہر مقام پر چھوڑتا گیا‘ دمشق میں بھی اس نے اتنا کام ضرور کیا کہ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کے واقعہ سے فائدہ اٹھا کر لوگوں میں اس خیال کو پھیلایا کہ ابوذر رضی اللہ عنہ سچ کہتے تھے‘ اور وہ راستی پر تھے‘ کیونکہ بیت المال کو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اللہ کا مال بتا کر اس پر اپنا قبضہ کرنا اور اپنے زیر تصرف رکھنا چاہا ہے‘ حالانکہ وہ مسلمانوں کا مال ہے اور سارے مسلمان اس میں شریک ہیں اور انہیں میں اس کو تقسیم کر دینا چاہیے‘ اسی سلسلہ میں اس نے سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو بھی مورد الزام ٹھہرایا اور لوگوں کو ان کے خلاف بھڑکایا‘ ان کے بعد عبداللہ بن سبا سیدنا ابوالدرداء کی خدمت میں حاضر ہوا اور نہایت احتیاط و قابلیت کے ساتھ اپنے فاسد خیالات ان کی خدمت میں پیش کرنے شروع کئے‘ انہوں نے عبداللہ بن سبا کی باتیں سن کر صاف طور پر کہہ دیا کہ مجھ کو تو تم یہودی معلوم ہوتے ہو اور اسلام کے پردے میں مسلمانوں کو گمراہ کرتے پھرتے ہو‘ وہاں جب اس کی دال نہ گلی تو وہ سیدنا عبادہ بن صامت کی خدمت میں پہنچا‘ انہوں نے جب اس کے خیالات سنے اور اس کی باتوں سے اس کا اندازہ کیا تو فوراً اس کو پکڑ لیا اور سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں لے کر جا کر کہا کہ مجھ کو تو یہ شخص وہی معلوم ہوتا ہے جس نے ابوذر رضی اللہ عنہ کو بہکایا اور تم سے لڑا دیا ہے‘ سیدنا امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے اسی وقت اس کو دمشق سے نکلوا دیا تھا اور وہ وہاںسے مصر کی طرف جا کر مصروف کار اور اپنی سازشی تدابیر کا جال پھیلانے میں مصروف ہو گیا تھا۔ جب ممالک محروسہ کے ہر گوقہ سے مدینہ منورہ میں خطوط آنے لگے اور خود دارالخلافہ میں شورش کے سامان پیدا ہوئے‘ تو سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے پاس مدینہ کے بعض اکابر آئے اور ان کو توجہ دلائی کہ اپنے عاملوں کی خبر لیں‘ اور لوگوں کی شکایتوں کو دور کریں‘ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام کی جماعت میں سے چند معتبر و معتمد حضرات کو منتخب کر کے ہر ایک صوبہ کی طرف ایک ایک