تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مدینہ منورہ سے روانہ ہو کر عمال اپنے اپنے صوبوں کی طرف روانہ ہوئے‘ جب سعید بن العاص اپنے صوبے کی طرف روانہ ہوئے تو مقام جرعہ پر پہنچ کر انہوں نے دیکھا کہ کوفہ والوں کا ایک بڑا لشکر یزید بن قیس کی ماتحتی میں موجود ہے‘ سعید بن العاص کے پہنچنے پر یزید نے بڑی سختی اور درشتی سے کہا کہ تم یہاں سے فوراً واپس چلے جائو‘ ہم تم کو کوفہ میں ہرگز داخل نہ ہونے دیں گے‘ یہ سن کر سعید بن عاص کے غلام نے کہا کہ یہ ناممکن ہے کہ سعید واپس چلے جائیں‘ یہ سن کر مالک اشتر نے فوراً آگے بڑھ کر سعید کے غلام کا پائوں پکڑا اور اونٹ سے نیچے کھینچ کر قتل کر دیا‘ اور سعید بن العاص سے کہا کہ جائو عثمان سے کہہ دو کہ ابوموسیٰ اشعری کو بھیج دے۔ سعید مجبوراً وہاں سے لوٹے اور مدینہ میں واپس آ کر تمام ماجرا سیدنا عثمان غنی کو سنایا‘ انہوں نے اسی وقت ابوموسیٰ اشعری کو اپنے پاس بلا کر کوفہ کی گورنری پر مامور فرمایا‘ ابو موسیٰ اشعری مدینہ سے روانہ ہو کر کوفہ میں پہنچے اور اپنے ہمراہ سیدنا عثمان کا ایک خط کوفہ والوں کے نام لائے کہ تم نے اپنے لیے جس شخص کو پسند کیا منتخب کیا ہے اسی کو تمہاری طرف بھیجا جاتا ہے‘ یہ بھی لکھا تھا کہ جہاں تک شریعت مجھ کو اجازت دے گی میں تمہاری خواہشات پورا کئے جائوں گا اور تمہاری زیادتیوں کو برداشت کر کے تمہاری اصلاح کی کوشش کروں گا۔ ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے کوفہ میں پہنچ کر جمعہ کے روز تمام لوگوں کے سامنے منبر پر چڑھ کر خطبہ دیا جس میں جماعت المسلمین کے اندر تفرقہ مٹانے اور امیر المومنین عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی اطاعت کرنے کی تاکید کی‘ ابو موسیٰ کی اس تقریر سے کوفہ میں کسی قدر سکون نمودار ہوا اور عام لوگ جو سبائی جماعت سے بے خبر اور بے تعلق تھے مطمئن ہو گئے‘ لیکن عبداللہ بن سبا کے گروہ اور سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے عناد رکھنے والوں نے رفتہ رفتہ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے عمال اور کوفہ کے اردگرد کے اضلاع میں رہنے والے چھوٹے چھوٹے حکام کے متعلق جو عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے مقرر کئے ہوئے تھے شکایات کرنی شروع کیں اور خط و کتابت کے ذریعہ مدینہ منورہ میں دوسرے با اثر حضرات کو بھی سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے بدگمان بنانا شروع کیا‘ مدینہ والوں کے پاس جب باہر والوں سے عاملوں کی شکایت میں خطوط پہنچتے تو وہ بہت پیچ و تاب کھاتے‘ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے پاس آتے اور ان کو عمال کی سزا دہی اور معزولی کے لیے مجبور کرتے۔ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ عند التحقیق چوں کہ اپنے عاملوں کو بے خطا پاتے‘ لہذا وہ ان کو سزا دینے یا معزول کرنے میں تامل کرتے‘ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خود مدینہ منورہ میں سیدنا عثمان غنی کے متعلق لوگوں کی زبان پر علانیہ شکایتیں آنے لگیں اور جا بجا خلیفہ وقت کی نسبت سرگوشیاں ہونی شروع ہوئیں‘ یہ رنگ دیکھ کر ابواسید ساعدی‘ کعب بن مالک اور حسان بن ثابت وغیرہ بعض حضرات مدینہ میں لوگوں کو طعن تشنیع سے روکتے اور اطاعت خلیفہ کی تاکید کرتے تھے‘ مگر لوگوں پر کوئی اثر نہ ہوتا تھا‘ یہ وہ زمانہ تھا کہ عبداللہ بن سبا کے ایجنٹ تمام ممالک اسلامیہ اور تمام بڑے بڑے شہروں اور قصبوں میں پہنچ چکے تھے‘ اور اس کے متبعین ہر جگہ پیدا ہو چکے تھے۔ ممالک اسلامیہ میں طاقت کے اعتبار سے آج کل پانچ بڑے بڑے مرکز تھے‘ مدینہ تو دارالخلافہ تھا اور شروع ہی سے وہ اسلامی طاقت و شوکت کا منبع و مرکز رہا تھا‘ کوفہ