تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
شریک ہو جاتا تو موقعہ پا کر ذمیوں کو لوٹ لیتا‘ کبھی کبھی اور لوگوں کو بھی اپنا شریک بناتا اور ڈاکہ زنی کرتا‘ اس کی ڈاکہ زنی کی خبریں مدینہ میں سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ تک پہنچیں۔ انہوں نے گورنر بصرہ کو لکھا کہ حکیم بن جبلہ کو شہر بصرہ کے اندر نظر بند رکھو اور حدود شہر سے باہر ہرگز نہ نکلنے دو‘ اس حکم کی تعمیل میں وہ بصرہ کے اندر محصور و نظر بند رہنے لگا‘ عبداللہ بن سبا حکیم بن جبلہ کے حالات سن کر مدینہ سے روانہ ہوا اور بصرہ میں پہنچ کر حکیم بن جبلہ کے مکان پر مقیم ہوا‘ یہاں اس نے حکیم بن جبلہ اور اس کے ذریعہ اس کے دوستوں اور دوسرے لوگوں سے مراسم پیدا کئے‘ اپنے آپ کو مسلمان اور حامی و خیر خواہ آل رسول ظاہر کر کے لوگوں کے دلوں میں اپنے منصوبے کے موافق فساد انگیز خیالات و عقائد پیدا کرنے لگا‘ کبھی کہتا کہ مجھ کو تعجب ہوتا ہے کہ مسلمان اس بات کے تو قائل ہیں کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ دنیا میں آئیں گے لیکن اس بات کو نہیں مانتے کہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ و سلم بھی دنیا میں ضرور آئیں گے‘ چنانچہ اس نے لوگوں کو {اِنَّ الَّذِیْ فَرَضَ عَلَیْکَ الْقُرْاٰنَ لَرَآدُّکَ اِلٰی مَعَاد} (القصص : ۲۸/۸۵) کی غلط تفسیر سنا سنا کر اس عقیدہ پر قائم کرنا شروع کیا کہ سیدنا محمد کی مراجعت دوبارہ دنیا میں ضرور ہو گی‘ بہت سے احمق اس فریب میں آ گئے‘ پھر اس نے ان احمقوں کو اس عقیدے پر قائم کرنا شروع کیا کہ ہر پیغمبر کا ایک خلیفہ اور وصی ہوا کرتا ہے اور سیدنا محمد کے وصی سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہیں۔ جس طرح رسول اللہ خاتم الانبیاء ہیں اسی طرح سیدنا علی خاتم الاوصیاء ہیں‘ پھر اس نے علانیہ کہنا شروع کیا کہ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے سوا دوسروں کو خلیفہ بنا کر بڑی حق تلفی کی ہے‘ اب سب کو چاہیے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی مدد کریں اور موجودہ خلیفہ کو قتل یا معزول کر کے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنا دیں۔ عبداللہ بن سبا یہ تمام منصوبے اور اپنی تحریک کی ان تمام تجویزوں کو مدینہ منورہ سے سوچ سمجھ کر بصرہ میں آیا تھا اور اس نے نہایت احتیاط اور قابلیت کے ساتھ بہ اقساط اپنی مجوزہ بد عقیدگیوں کو شائع کرنا اور لوگوں کے سامنے بیان کرنا شروع کیا۔ رفتہ رفتہ اس فتنے کا حال بصرے کے گورنر عبداللہ بن عامر کو معلوم ہوا تو انہوں نے عبداللہ بن سبا کو بلا کر پوچھا کہ تم کون ہو‘ کہاں سے آئے ہو اور یہاں کیوں آئے ہو‘ عبداللہ بن سبا نے کہا مجھ کو اسلام سے دلچسپی ہے‘ میں اپنے یہودی مذہب کی کمزوریوں سے واقف ہو کر اسلام کی طرف متوجہ ہوا ہوں اور یہاں آپ کی رعایا بن کر زندگی بسر کرنا چاہتا ہوں‘ عبداللہ بن عامر نے کہا کہ میں نے تمہارے حالات اور تمہاری باتوں کو تحقیق کیا ہے مجھ کو تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ تم کوئی فتنہ برپا کرنا اور مسلمانوں کو گمراہ کر کے یہودی ہونے کی حیثیت سے جمعیت اسلامی میں افتراق و انتشار پیدا کرنا چاہتے ہو‘ چونکہ عبداللہ بن عامر کی زبان سے پتے کی باتیں نکل گئی تھیں‘ لہذا اس کے بعد عبداللہ بن سبا نے بصرے میں اپنا قیام مناسب نہ سمجھا اور اپنے خاص الخاص راز دار اور شریک کار لوگوں کو وہاں چھوڑ کر اپنی بنائی ہوئی جماعت کے لیے مناسب تجاویز و ہدایات سمجھا کر بصرہ سے چل دیا اور دوسرے اسلامی فوجی مرکز یعنی کوفہ۱؎ میں آیا‘ یہاں پہلے سے ہی ایک جماعت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ اور ان کے عامل کی دشمن موجود تھی‘ عبداللہ بن سبا کو کوفہ میں آ کر بصرہ سے زیادہ بہتر موقع اپنی شرارتوں کو کامیاب بنانے کا ملا۔