تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
طرف متوجہ ہونے کی اطلاع ہوئی تو اس نے ایک لاکھ بیس ہزار فوج جمع کر کے ایک شبانہ روز کی مسافت پر آگے بڑھ کر مسلمانوں کا مقابلہ کیا‘ دونوں لشکر ایک دوسرے کے مقابل پہنچ گئے تو سیدنا عبداللہ بن سعد نے سب سے پہلے عیسائی لشکر کو اسلام کی دعوت دی‘ جرجیر نے اس دعوت کا صاف انکار کیا تو دوبارہ جزیہ ادا کرنے کے لیے کہا گیا‘ جب اس نے جزیہ ادا کرنے سے بھی صاف انکار کیا تو مسلمانوں نے صف آرائی کر کے لڑائی شروع کی‘ لڑائی بڑے زور شور سے شروع ہوئی‘ فتح و شکست کی نسبت کوئی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی تھی کہ اتنے میں مسلمانوں کی کمک کے لیے ایک تازہ دم فوج پہنچی اور لشکر اسلام سے نعرہ تکبیر بلند ہوا۔ اس اجمال کی تفصیل اس طرح ہے کہ بعد مسافت کے سبب اس لشکر کی خبر مدینہ منورہ میں جلد نہیں پہنچ سکتی تھی ‘ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے جب دیکھا کہ لشکر افریقہ کی خبر آئے ہوئے زیادہ دن گذر گئے ہیں تو انہوں نے سیدنا عبدالرحمن بن زبیر کو ایک دستہ فوج کے ہمراہ افریقہ کی طرف روانہ فرما دیا تھا‘ سیدنا عبدالرحمن بن زبیر اپنی فوج کے ساتھ لشکر اسلام میں داخل ہو گئے‘ اس لیے مسلمانوں نے تکبیر کا نعرہ بلند کیا‘ جرجیر نے یہ نعرہ تکبیر سن کر دریافت کیا کہ مسلمانوں میں کیوں یہ تکبیر کا نعرہ بلند ہوا تو اس کو بتایا گیا کہ مسلمانوں کی ایک تازہ دم فوج مدد کے لیے پہنچ گئی ہے‘ جرجیر یہ سن کر بہت فکر مند ہوا مگر اس روز لڑائی کا کوئی فیصلہ نہ ہو سکا‘ شام ہونے پر دونوں فوجیں اپنے اپنے خیموں کی طرف متوجہ ہوئیں۔ اگلے روز جب لڑائی شروع ہوئی تو عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے میدان جنگ میں عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ کو موجود نہ پا کر سبب دریافت کیا‘ ان کو بتایا گیا کہ جرجیر نے منادی کرا دی ہے کہ جو شخص عبداللہ بن سعد کا سر کاٹ کر لائے گا اس کو ایک لاکھ دینار بطور انعام دیے جائیں گے اور اس کے ساتھ جرجیر اپنی لڑکی کی شادی بھی کر دے گا‘ لہذا عبداللہ بن سعد جان کے خوف سے میدان میں نہیں آئے‘ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ یہ بات سن کر عبداللہ بن سعد کے پاس ان کے خیمے میں گئے اور کہا کہ تم بھی اپنے لشکر میں منادی کرا دو کہ جو شخص جرجیر کا سرکاٹ کر لائے گا‘ اس کو مال غنیمت سے ایک لاکھ دینار دیا جائے گا اور جرجیر کی لڑکی سے اس کا نکاح کیا جائے گا اور جرجیر کے ملک کا حاکم اس کو بنا دیا جائے گا۔ چنانچہ اسی وقت عبداللہ بن سعد نے منادی کرائی جس سے جرجیر کو سخت مصیبت پیش آئی‘ عبداللہ بن سعد میدان میں گئے اور آج بھی طرفین نے خوب خوب داد شجاعت دی‘ مگر فتح و شکست کا کوئی فیصلہ نہ ہو سکا‘ جب رات ہوئی تو مجلس مشورت منعقد ہوئی اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے رائے دی کہ اسلامی لشکر سے آدھی فوج میدان جنگ میں جا کر دشمن کا مقابلہ کرے‘ اور آدھی خیموں میں رہے‘ جب حسب دستور دونوں فوجیں شام تک لڑتی ہوئی تھک کر ایک دوسرے سے جدا ہوں اور اپنے خیموں کی طرف متوجہ ہوں تو اس وقت وہ تازہ دم فوج جو خیموں میں بیٹھی رہی ہے شمشیر بکف رومیوں پر ٹوٹ پڑے‘ اس طرح ممکن ہے کہ لڑائی کا جلد فیصلہ ہو جائے‘ اس رائے کو سب نے پسند کیا۔ اگلے دن یعنی تیسرے روز کی جنگ میں نصف فوج صبح سے مصروف جنگ ہوئی‘ اور نصف فوج عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی ماتحتی میں خیموں کے اندر منتظر رہی‘ دوپہر تک فریقین لڑتے رہے اور بعد دوپہر ایک دوسرے سے جدا ہوئے تو فوراً ابن الزبیر