تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کریں تو آپ بادشاہ ہیں‘ ورنہ خلیفہ۔ آپ نے خلیفہ ہونے کے بعد ابتداء مدتوں تک بیت المال سے ایک حبہ بھی نہیں لیا‘ رفتہ رفتہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ آپ پر افلاس مستولی ہونے لگا اور فقرو فاقہ کی نوبت پہنچنے لگی‘ تب آپ نے اصحاب کرام کو مسجد نبوی میں جمع کر کے فرمایا کہ میں کاروبار خلافت میں اس قدر مصروف رہتا ہوں کہ اپنے نفقہ کا کوئی فکر نہیں کر سکتا‘ آپ سب مل کر میرے لیے کچھ مقرر کر دیجئے‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ صبح شام کا کھانا آپ کو بیت المال سے ملا کرے گا‘ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اسی کو منظور فرما لیا۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ فاروق اعظم کو غصہ آیا ہو اور کسی نے اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا ہو‘ یا اللہ تعالیٰ کا خوف یاد دلایا ہو‘ یا قرآن شریف کی کوئی آیت پڑھی ہو اور آپ کا غصہ فرونہ ہو گیا ہو‘ سیدنا بلال نے ایک مرتبہ سیدنا اسلم رضی اللہ عنہ سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا حال دریافت کیا‘ انہوں نے کہا اس میں شک نہیں کہ آپ تمام آدمیوں سے بہتر ہیں لیکن جب آپ کو غصہ آ جاتا ہے تو غضب ہی ہو جاتا ہے‘ سیدنا بلال نے کہا کہ اس وقت تم کوئی آیت کیوں نہیں پڑھ دیا کرتے کہ سارا غصہ اتر جائے۔ سیدنا عبداللہ بن عمر روایت کرتے ہیں کہ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ایک حصہ فوج پر ساریہ نامی ایک شخص کو سپہ سالار بنا کر بھیجا تھا‘ ایک روز خطبہ میں آپ نے تین مرتبہ بلند آواز سے فرمایا کہ ’’اے ساریہ پہاڑ کی طرف جا‘‘ چند روز (ایک ماہ) کے بعد ایک ایلچی آیا اور اس نے جنگ کے حالات سناتے ہوئے کہا کہ ہم کو شکست ہوا چاہتی تھی کہ ہم نے تین مرتبہ کسی شخص کی آواز سنی کہ ’’ساریہ پہاڑ کی طرف جا‘‘ چنانچہ ہم نے پہاڑ کی طرف رخ کیا اور خدائے تعالیٰ نے ہمارے دشمنوں کو شکست دی‘ جس روز خطبہ میں فاروق اعظم نے یہ الفاظ فرمائے تھے‘ اس روز لوگوں نے کہا کہ آپ یہاں ساریہ کو پکار رہے ہیں وہ تو نہاوند کے مقام پر کفار کے مقابلہ میں مصروف ہے‘ آپ نے فرمایا اس وقت میں نے ایسا ہی نظارہ دیکھا کہ مسلمان مصروف جنگ ہیں اور پہاڑ کی طرف متوجہ ہونا ان کے لیے مفید ہے‘ لہذا بے ساختہ میری زبان سے یہ الفاظ نکل گئے‘ جب ساریہ کا خط اور ایلچی آیا‘ ٹھیک جمعہ کے روز عین نماز جمعہ کے وقت اسی تاریخ کا واقعہ اس خط میں لکھا گیا اور ایلچی نے زبانی بھی بیان کیا۔ ایک مرتبہ سیدنا عبدالرحمن بن عوف نے فاروق اعظم سے کہا کہ لوگ آپ سے بہت ڈرتے ہیں اور آپ کی طرف نگاہ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتے‘ اور نہ آپ کے سامنے لب ہلا سکتے ہیں‘ فاروق اعظم نے فرمایا کہ واللہ جس قدر یہ لوگ مجھ سے ڈرتے ہیں اس سے زیادہ میں ان لوگوں سے ڈرتا ہوں۔ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے صوبوں کے عاملوں اور گورنروں کو حکم دے رکھا تھا کہ ایام حج میں سب آ کر شریک حج ہوں‘ آپ خود بھی ہر سال حج کو جاتے رہے‘ عاملوں کے شریک حج کرنے میں ایک خاص مصلحت یہ تھی کہ حج کے موقعہ پر ہر ملک اور ہر صوبے کے لوگوں کو موقع حاصل ہے کہ وہ آ کر مجھ سے ملیں اور اپنے عامل میں اگر کوئی نقص دیکھتے ہیں تو اس کی شکایت کریں اور اسی وقت اس عامل سے بھی جو وہاں موجود ہے جواب طلب کیا جا سکے‘ اس طرح عاملوں کو اپنی عزت بچانے کا بہت خیال رہتا تھا کہ اگر ذرا سی بھی لغزش ہو گئی‘ تو حج کے مجمع عام میں بڑی فضیحت