تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
چھولداری ساتھ نہ ہوتی تھی‘ کسی کیکر کے درخت پر چادر پھیلا دی اور اس کے نیچے آرام کی غرض سے ٹھہر گئے‘ لیٹنے یا سونے کی ضرورت پیش آتی تو زمین پر سنگریزوں اور پتھریوں کو ہموار کر کے اور پتھریوں کو ایک جگہ جمع کر کے تکیہ بنا کر اور کپڑا بچھا کر سو جاتے۔ آپ نے سیدنا ازواج مطہرات‘ اصحاب بدر‘ اصحاب بعیت الرضوان وغیرہ تمام جلیل القدر صحابیوں کی تنخواہیں بیت المال سے مقرر کر رکھی تھیں‘ جب سیدنا اسامہ کی تنخواہ اپنے بیٹے عبداللہ کی تنخواہ سے زیادہ مقرر کی تو سیدنا عبداللہ بن عمر نے اس پر عذر کیا‘ آپ نے اپنے بیٹے سے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اسامہ کو تجھ سے اور اسامہ کے باپ کو تیرے باپ سے زیادہ عزیز رکھتے تھے۔ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے مشیر و ندیم سب علماء ہوتے تھے خواہ وہ بوڑھے ہوں یا نو عمر‘ آپ علماء کی بڑی قدر و عزت کرتے تھے‘ مردم شناسی و جوہر شناسی آپ کی خصوصیات میں شامل ہے ہر ایک شخص کی خوبیوں کو آپ بہت جلد معلوم کر لیتے‘ اور پھر ان کی پوری پوری قدر کرتے‘ اسی طرح صحابہ کرام میں سے ہر ایک شخص میں جو جو خاص صفت تھی اسی کے موافق خدمات اور عہدے ان کو عطا کئے تھے‘ فاورق اعظم کسی شخص کے محض روزے نماز سے بھی کبھی دھوکا نہ کھاتے تھے‘ وہ اگرچہ خود بڑی زاہدانہ زندگی بسر کرتے تھے لیکن ذمہ داری کے کاموں پر یا فوجوں کی سرداری اور صوبوں کی حکومت پر جن لوگوں کو مقرر فرماتے‘ ان کے انتخاب میں محض زہد و اتقاء اور زاہدانہ زندگی ہی کو معیار قرار نہ دیتے‘ بلکہ جن کاموں پر جن لوگوں کو مقرر فرماتے ان میں ان کاموں کے سرانجام و اہتمام کی پوری قابلیت دیکھ لیتے‘ آپ کی دس سالہ خلافت کے زمانہ میں سینکڑوں بڑی بڑی لڑائیاں عراق و شام فلسطین اور مصر و خراسان وغیرہ ممالک میں ہوئیں‘ لیکن آپ خود کسی لڑائی میں بہ نفس نفیس شریک نہ ہوئے‘ تاہم ان لڑائیوں کا اہتمام اور ضروری انتظام فاروق اعظم رضی اللہ عنہ ہی کے ہاتھ میں ہوتا تھا‘ ہر ایک سردار کو آپ کی طرف سے نہایت معمولی معمولی باتوں کے متعلق بھی ہدایات پہنچ جاتیں اور اس کو ان ہدایات کے موافق ہی کام کرنا پڑتا تھا‘ کسی لڑائی اور کسی معرکہ میں یہ نہیں بتایا جا سکتا ہے کہ فلاں حکم فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے غلط اور غیر مفید دیا تھا‘ یا فلاں انتظام جو فاروق اعظم نے کیا وہ غیر ضروری تھا‘ آپ نے صوبوں کے تمام عمال کو لکھ بھیجا تھا کہ کوئی سپاہی میدان جنگ میں مسلسل چار مہینے سے زیادہ نہ روکا جائے‘ چار مہینے کے بعد اس کو اپنے اہل و عیال میں آنے کی رخصت دے دی جائے۔ ایک مرتبہ آپ کو کسی مرض کی وجہ سے کسی نے شہد کھانے کو بتایا‘ آپ کے یہاں شہد نہ تھا نہ کسی اور جگہ سے مل سکتا تھا‘ البتہ بیت المال میں تھوڑا سا شہد موجود تھا‘ لوگوں نے کہا کہ آپ اس شہد کو استعمال کریں‘ آپ نے کہا کہ یہ سارے مسلمانوں کا مال ہے‘ جب تک عام لوگ مجھ کو اجازت نہ دیں میں یہ استعمال نہیں کر سکتا۔ القصہ آپ نے شہد استعمال نہ کیا۔ ایک روز آپ اونٹ کے زخم دھوتے جاتے تھے اور فرماتے تھے کہ مجھ کو خوف معلوم ہوتا ہے کہ کہیں قیامت کے دن مجھ اس سے اس کی بابت بھی سوال نہ ہو‘ آپ نے ایک روز سیدنا سلمان سے دریافت کیا کہ میں بادشاہ ہوں یا خلیفہ‘ انہوں نے جواب میں فرمایا کہ اگر آپ کسی مسلمان سے ایک درہم یا اس سے کم و بیش وصول کر کے بے جا خرچ