تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہو جانا اور اپنی خواہش کے خلاف کام کرنا پڑ جاتا ہے‘ گویا حکومت کا کوئی ایک حقیقی مرکز نہیں ہوتا اور امر سلطنت منقسم ہو کر تمام افراد ملک یا افراد قوم سے متعلق ہوتا ہے‘ بظاہر یہ نظام سلطنت بہت ہی دل پسند اور خوشگوار معلوم ہوتا ہے اور عوام چونکہ اپنے اوپر خود حکومت کرنے کا موقع پاتے اور جبرو استبداد کی زنجیروں کو ٹوٹا ہوا دیکھنے سے خوش ہوتے ہیں۲؎ لیکن وہ اپنا بہت کچھ نقصان بھی کرتے ہیں نسل انسانی کی شرافت خلیع الرسن اور بہمہ جہت آزاد ہونے کے خلاف واقع ہوئی ہے‘ یہی سبب ہے کہ فرانس و امریکہ وغیرہ میں جہاں جمہوری نظام قائم ہے وہاں روحانیت جو مذہب قائم کرنا چاہتی ہے بالکل تباہ و برباد ہو گئی ہے۔ روحانیت و مذاہب کے سکھائے ہوئے اعلیٰ اخلاق کسی ایسے ملک میں قائم ہی نہیں رہ سکتے جہاں جمہوریت کاسیلاب موجیں مار رہا ہو‘ جمہوریت کا نظام سلطنت انسان کو ایسی آزاد روش پر ڈالنا اور اس قدر خلیع الرسن بنانا چاہتا ہے کہ انسان اللہ شناسی اور اللہ پرستی کے خیالات کو تادیر قائم نہیں رکھ ۱؎ مغرب سے پروان چڑھنے والی جمہوریت (D صلی اللہ علیہ و سلم moc رضی اللہ عنھا ac رضی اللہ عنھم ) خالصتاً ایک کفریہ‘ شرکیہ اور طاغوتی نظام حکومت ہے‘ جسے یہود و نصاریٰ نے دنیا پر اپنا تسلط قائم کرنے اور اسلام کی اشاعت اور ترویج و تنفیذ کو روکنے کے لیے دنیا کے سامنے پیش کیا۔ عصر حاضر میں دنیا کے بعض مسلمان ملکوں میں بعض مسلمان جماعتوں اور حلقوں نے اسے اسلامی سیاست کے ساتھ پیوند کرنے کی کوشش کی مگر ان کا یہ تجربہ کامیاب نہیں رہا۔ اقبال نے بالکل درست کہا کہ جمہوریت اک طرز حکومت ہے جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں‘ تولا نہیں کرتا ۲؎ بظاہر یہ بات درست معلوم ہوتی ہے کہ جمہوری نظام میں عوام خود حکومت کرتے اور آزادی فکر و عمل محسوس کرتے ہیں‘ لیکن یہ امر ایک خوش فہمی اور دھوکہ کے سوا اور کچھ نہیں۔ یہ نظام بھی جبر و استبداد کی نئی راہیں کھولتا ہے‘ اس کے دیگر باطل و طاغوتی افکار و حوادث الگ ہیں۔ سکتا۔ خالص جمہوری نظام حکومت میں سب سے زیادہ قوی تحریک دہریت اور لامذہبیت کی ہے‘ جس طرح ریگستان میں کھیتی پیدا نہیں ہو سکتی‘ پانی سے نکل کر مچھلی زندہ نہیں رہ سکتی‘ تاریک مقام اور کثیف ہوا میں انسان تندرست نہیں رہ سکتا اسی طرح خالص جمہوری نظام حکومت کے ماتحت مذہبی خیالات‘ مذہبی پابندیاں‘ مذہبی عبادات نشوونما نہیں پا سکتے اور کوئی الہامی مذہب۱؎ تادیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ دین کا اصل الاصول پابندی و فرمانبرداری ہے اور سچے مذہب۲؎ کی پابندی انسانی فطرت کے اس صحیح جذبہ کو زندہ رکھتی ہے کہ ہر اعلیٰ اور مستحق تکریم ہستی کو اعلیٰ مقام دیا جائے اور اس کی تکریم کی جائے‘ اور اللہ تعالیٰ چونکہ سب سے اعلیٰ اور حقیقی کمال رکھتا ہے لہذا اس کی جناب میں سر بسجود ہو کر سبحان ربی الاعلیٰ کا اقرار کیا جائے۔ دنیا میں ہر ایک نبی ہر ایک رسول ہر ایک ہادی نے یہ جائز مطالبہ کیا ہے کہ تمام انسان میرے احکام کو مانیں اور میری فرمانبرداری بجا لائیں‘ اور اس حقیقت سے انکار نہیں ہو سکتا کہ ان رسولوں‘ نبیوں ‘ ہادیوں اور رہبروں کی فرمانبرداری اور ان کے احکام کی بلاچون و چرا تعمیل کرنے ہی سے نسل انسانی نے ہمیشہ فلاح پائی ہے اور اس فرمانبرداری ہی کے نتیجہ میں نسل انسانی ذلت و پستی کے مقامات سے نکل کر اس اوج ترقی کے مقام تک آئی ہے‘ پس جو چیز یا جو نظام حکومت اس روش ستودہ کے لیے سم قاتل ہو اور انسان کو ہر ایک پابندی سے آزاد ہو کر خلیع الرسن رہنے کی ترغیب دیتا ہو وہ نتیجہ میں نوع انسانی کے لیے ہرگز مفید ثابت نہیں ہو سکتا۔