تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
ہیں کہ سب سمٹ کر قلب پر حملہ کرو اور رستم کو گرفتار کر لو‘ اس آواز نے نہ صرف سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کو تسکین دی بلکہ تمام مسلمانوں میں از سر نو طاقت پیدا کر دی‘ تمام دن اور تمام رات لڑتے ہوئے غازیان اسلام تھک کر چور چور ہو گئے تھے‘ مگر اب پھر ہر قبیلہ کے سردار نے اپنی اپنی قوم کو مقابلہ کے لیے برانگیختہ کیا‘ بڑے زور شور سے تلوار چلنے لگی۔ سیدنا قعقاع کی رکابی فوج لڑتی ہوئی اس مقام تک پہنچ گئی جہاں رستم ایک زریں تخت پر بیٹھا ہوا اپنی فوج کو لڑا رہا‘ اور حصہ فوج کو احکام بھیج رہا تھا۔ اسلامی حملہ آوروں کے قریب پہنچنے پر رستم خود تخت سے اتر کر لڑنے لگا‘ جب زخمی ہوا تو پیٹھ پھیر کر بھاگا‘ سیدنا ہلال بن علقمہ نے فوراً آگے بڑھ کر بھاگتے ہوئے برچھے کا وار کیا‘ جس سے اس کی کمر ٹوٹ گئی اور نہر میں گر پڑا‘ ہلال نے فوراً گھوڑے سے کود کر اور جھک کر رستم کی ٹانگیں پکڑ کر باہر کھینچ لیا‘ اور اس کا کام تمام کر کے فوراً رستم کے تخت پر کھڑے ہو کر بلند آواز سے پکارا کہ ’’اللہ تعالیٰ کی قسم میں نے رستم کو قتل کر دیا ہے‘‘ اس آواز کے سنتے ہی اسلامی فوجوں نے نعرہ تکبیر بلند کیا اور ایرانیوں کے ہوش و حواس باختہ ہو گئے‘ ایرانی میدان سے بھاگے‘ لشکر ایران میں سواروں کی تعداد تیس ہزار تھی جن میں سے بمشکل تیس سوار بھاگ کر اپنی جان بچا کر جا سکے‘ باقی سب میدان جنگ میں مارے گئے۔ سیدنا ضرار بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے درفش کاویانی ایرانیوں کے مشہور جھنڈے پر قبضہ کیا جس کے عوض انہوں نے تیس ہزار دینار لیے حالانکہ وہ دو لاکھ دس ہزار دینار کر مالیت کا تھا۔ اس لڑائی میں مسلمانوں کے کل چھ ہزار آدمی شہید ہوئے‘ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے رستم کا تمام سامان و اسلحہ ہلال بن علقمہ کو دیا اور قعقاع و شرجیل کو تعاقب کے لیے روانہ کیا‘ لیکن ان سے بھی پہلے سیدنا زہرہ بن حیوۃ ایک دستہ فوج لے کر ایرانیوں کے پیچھے روانہ ہو چکے تھے‘ راستے میں جالینوس مفروروں کو روک روک کر مجتمع کر رہا تھا‘ سیدنا زہرہ نے اس کو حملہ کر کے قتل کر دیا اور اس کے تمام مال و سامان پر قبضہ کر کے سیدنا سعد کی خدمت میں حاضر ہوئے‘ سیدنا سعد کو جالینوس کا سامان ان کے حوالہ کرنے میں تامل ہوا‘ اور اس معاملہ میں دربار خلافت سے اجازت طلب کی‘ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے سیدنا زہرہ کی ستائش کی اور جالینوس کا سامان انہیں کو دے دینے کا حکم دیا۔ سیدنا سعد نے میدان جنگ کا ہنگامہ فرو ہونے کے بعد مال غنیمت فراہم کیا‘ فوراً سیدنا فاروق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں فتح کی خوش خبری کا خط لکھا اور ایک تیز رفتار شتر سوار کو دے کر مدینہ کی طرف روانہ کیا‘ یہاں فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا یہ حال تھا کہ روزانہ صبح اٹھ کر مدینے سے باہر دور تک نکل جاتے اور قادسیہ کے قاصد کا انتظار کر کے دوپہر کے بعد مدینہ میں واپس آ جاتے تھے‘ ایک روز حسب دستور وہ باہر تشریف لے گئے‘ دور سے ایک شتر سوار نظر پڑا‘ اس کی طرف لپکے‘ قریب پہنچ کر دریافت کیا کہ کہاں سے آتے ہو‘ اس نے کہا کہ میں قادسیہ سے آ رہا ہوں اور خوش خبری لایا ہوں کہ خدائے تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح عظیم عطا کی‘ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اس لڑائی کی کیفیت اور فتح کے تفصیلی حالات دریافت کرنے شروع کئے اور شتر سوار کی رکاب پکڑے ہوئے اس کے ساتھ ساتھ دوڑتے ہوئے مدینے میں داخل ہوئے‘ شتر سوار حالات سناتا جاتا تھا اور اپنے اونٹ پر سوار مدینہ میں دربار خلافت کی