تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
شروع کی‘ قاریوں نے سورہ انفال کی تلاوت سے تمام لشکر میں ایک جوش اور ہیجانی کیفیت پیدا کر دی۔ بہرحال دونوں فوجیں مسلح ہو کر ایک دوسرے کے مقابل صف آراء ہو گئیں‘ سب سے پہلے لشکر ایران کی طرف سے ہرمزنامی ایک شہزادہ میدان میں نکلا جو زریں تاج پہنے ہوئے تھا‘ اور ایران کے مشہور پہلوانوں میں شمار ہوتا تھا‘ اس کے مقابلے کے لیے سیدنا غالب بن عبداللہ اسدی اسلامی لشکر سے نکلے‘ سیدنا غالب نے میدان میں جاتے ہی ہرمز کو گرفتار کر لیا اور گرفتار کر کے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے پاس لا کر ان کے سپرد کر گئے‘ اس کے بعد ایک اور زبردست شہسوار اہل فارس کی جانب سے نکلا‘ ادھر سے سیدنا عاصم اس کے مقابلے کو پہنچے‘ طرفین سے ایک ایک دو دو وار ہی ہونے پائے تھے کہ ایرانی شہسوار بھاگا سیدنا عاصم نے اس کا تعاقب کیا لشکر فارس کی صف اول کے قریب پہنچ کر اس کے گھوڑے کی دم پکڑ کر روک لیا اور سوار کو اس کے گھوڑے سے اٹھا کر اور اپنے آگے زبردستی بٹھا کر گرفتار کر لائے‘ یہ بہادری دیکھ کر لشکر ایران سے ایک اور بہادر چاندی کا گرز لیے ہوئے نکلا‘ اس کے مقابلہ پر سیدنا عمروبن معدیکرب نکلے اور گرفتار کر کے لشکر اسلام میں لے آئے۔ رستم نے اپنے کئی سرداروں کو اس طرح گرفتار ہوئے دیکھ کر فوراً جنگ مغلوبہ شروع کر دی اور سب سے پہلے ہاتھیوں کی صف کو مسلمانوں کی طرف ریلا ہاتھیوں کے اس حملہ کو قبیلہ بجیلہ نے روکا‘ لیکن ان کا بہت نقصان ہوا‘ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے جو بڑے غور سے میدان جنگ کا رنگ دیکھ رہے تھے‘ فوراً بنی اسد کے لوگوں کو بجیلہ کی کمک کے لیے حکم دیا‘ بنو اسد نے آگے بڑھ کر خوب خوب داد مردانگی دی‘ لیکن جب ان کی بھی حالت نازک ہوئی‘ تو سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے فوراً قبیلہ کندہ کے بہادروں کو آگے بڑھنے کا حکم دیا‘ بنو کندہ نے آگے بڑھ کر اس شان سے حملہ کیا کہ اہل فارس کے پائوں اکھڑ گئے اور وہ پیچھے ہٹنے لگے‘ رستم نے یہ رنگ دیکھ کر تمام لشکر ایران کو مجموعی طاقت سے یک بارگی حملہ کرنے کا حکم دیا‘ اس متفقہ سخت حملے کو دیکھ کر سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے تکبیر کہی‘ اور تمام اسلامی لشکر نے سیدنا سعد کی تقلید میں تکبیر کہہ کر ایرانیوں پر حملہ کیا ‘ گویا دو سمندر ایک دوسرے پر امنڈ آئے یا دو پہاڑ ایک دوسرے سے ٹکرائے‘ فریقین کی فوجیں ایک دوسرے میں خلط ملط ہو گئیں‘ اس حالت میں ایرانیوں کے جنگی ہاتھیوں نے اسلامی لشکر کو سخت نقصان پہنچانا شروع کیا‘ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے فوراً تیر اندازوں کو حکم دیا کہ ہاتھیوں پر اور ہاتھیوں کے سواروں پر تیر اندازی کرو‘ سیدنا عاصم رضی اللہ عنہ نے نیزہ لے کر ہاتھیوں پر حملہ کیا‘ ان کی تقلید میں دوسرے بہادروں نے بھی ہاتھیوں کی سونڈوں پر تلواروں اور نیزوں سے زخم پہنچانے شروع کئے‘ تیر اندازوں نے ایسے تیر برسائے کہ فیل نشینوں کو جوابی تیر اندازی کی مہلت ہی نہ ملی‘ نتیجہ یہ ہوا کہ ہاتھی پیچھے ہٹے اور بہادروں کے لیے میدان میں شمشیر زنی کے جوہر دکھانے کے مواقع ملے‘ صبح سے شام تک میدان کارزار گرم رہا‘ رات کی تاریکی نے لڑائی کو کل کے لیے ملتوی کر دیا‘ یہ دو شنبہ کا روز تھا محرم ۱۴ ھ کا واقعہ ہے۔ اگلے دن علی الصبح بعد نماز فجر سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلے کل کے شہداء کو قادسیہ کے مشرق کی جانب دفن کرایا‘ کل کے شہدا کی تعداد پانچ سو تھی زخمیوں کی مرہم پٹی کا سامان رات ہی میں کر دیا گیا تھا‘ شہداء کے دفن سے