تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سے روانہ ہوا۔ راستے میں جس قدر شہر‘ قصبے اور قریے آتے تھے‘ بہمن جادویہ ہر جگہ سے لوگوں کو عرب کے مقابلے پر آمادہ کر کے اپنے ساتھ لیتا جاتا تھا‘ یہاں تک کہ وہ دریائے فرات کے کنارے مقام قس ناطف میں آ کر مقیم ہوا۔ ادھر ابوعبیدہ بن مسعود اس لشکر عظیم کی آمد کا حال سن کر مقام کسکر سے روانہ ہوئے اور دریائے فرات کے اس کنارے پر مقام مروحہ میں مقیم ہوئے‘ چونکہ دریائے فرات بیچ میں حائل تھا لہذا دونوں لشکر چند روز تک خاموش پڑے رہے‘ بالآخر فریقین کی رضا مندی سے دریائے فرات پر پل تیار کیا گیا‘ جب پل بن کر تیار ہو گیا تو بہمن جادویہ نے ابوعبیدہ کے پاس پیغام بھیجا کہ تم دریا کو عبور کر کے اس طرف آتے ہو یا ہم کو دریا کے اس طرف بلاتے ہو‘ اگرچہ دوسرے سرداروں کی رائے یہی تھی کہ اہل فارس کو دریا کے اس طرف بلانا چاہیے لیکن ابوعبید نے یہی پسند کیا کہ ہم دریا کے اس طرف جا کر ایرانیوں کا مقابلہ کریں‘ چنانچہ وہ اسلامی لشکر لے کر فرات کے اس طرف گئے وہاں ایرانی لشکر اور دریائے فرات کے درمیان بہت ہی تھوڑا سا میدان تھا جو لشکر اسلام کے سے کھچا کھچ بھر گیا‘ بہرحال صفیں آراستہ کر کے فریقین نے میدان کارزار گرم کیا‘ بہمن جادویہ نے ہاتھیوں کی صف کو لشکر کے آگے رکھا‘ ان ہاتھیوں پر تیر انداز بیٹھے ہوئے تھے اور وہ لشکر اسلام پر تیر اندازی کر رہے تھے‘ مسلمانوں کے گھوڑوں نے اس سے پیشتر کبھی ہاتھی نہ دیکھے تھے‘ لہذا جب مسلمان حملہ آور ہوتے ان کے گھوڑے ہاتھیوں کو دیکھ کر بدکتے اور بے قابو ہو کر ادھر ادھر بھاگتے‘ لڑائی کا یہ عنوان دیکھ کر ابوعبید نے حکم دیا کہ پیادہ ہو کر حملہ کرو‘ یہ حملہ بڑی جاں بازی و مردانگی کے ساتھ کیا گیا‘ لیکن ہاتھیوں نے جب اسلامی صفوف پر حملہ کرنا اور لوگوں کو کچلنا شروع کیا تو مسلمانوں کی صفیں درہم برہم ہونے لگیں‘ ابوعبید رضی اللہ عنہ نے بلند آواز سے لوگوں کو جرات دلائی اور کہا کہ ہاتھیوں کی سونڈوں کو تلوار سے کاٹو‘ یہ کہہ کر انہوں نے خود ہاتھیوں پر حملہ کیا اور یکے بعد دیگرے کئی ہاتھیوں کی سونڈیں کاٹ کر ان کے اگلے پائوں تلوار کی ضرب سے کاٹے‘ اور اس طرح ہاتھیوں کو گرا کر ان کے سواروں کو قتل کیا۔ اپنے سپہ سالاروں کی یہ بہادری دیکھ کر دوسروں کو بھی جرات ہوئی اور مسلمانوں نے ایرانی ہاتھیوں کے مقابلہ میں شیرانہ حملے کئے‘ عین اس حالت میں کہ معرکہ کارزار تیزی سے گرم تھا‘ سیدنا ابوعبیدہ بن مسعود سپہ سالار لشکر اسلام پر جنگی ہاتھی نے حملہ کیا‘ابوعبید رضی اللہ عنہ نے نہایت چابک دستی سے تلوار کا وار کیا اور ہاتھی کی سونڈ کٹ کر الگ جاپڑی لیکن ہاتھی نے اسی حالت میں آگے بڑھ کر ان کو گرا دیا‘ اور سینے پر پائوں رکھ دیا‘ جس سے ان کی پسلیاں چور چور ہو گئیں‘ ابوعبیدہ کی شہادت کے بعد ان کے بھائی حکم نے فوراً آگے بڑھ کر علم اپنے ہاتھ میں لیا لیکن وہ بھی ہاتھی پر حملہ آور ہو کر ابوعبیدہ کی طرح شہید ہوئے‘ ان کے بعد قبیلہ بنو ثقیف کے اور چھ آدمیوں نے یکے بعد دیگرے علم ہاتھ میں لیا اور جام شہادت نوش کیا‘ آٹھویں شخص جنہوں نے علم کو سنبھالا مثنی بن حارثہ تھے انہوں نے علم ہاتھ میں لیتے ہی مدافعت اور استقامت میں جرات کا اظہار کیا‘ لیکن لوگ اپنے سات سرداروں کو یکے بعد دیگرے قتل ہوتے دیکھ اور ہاتھیوں کی حملہ آوری کی تاب نہ لا کر فرار پر آمادہ ہو چکے تھے ان بھاگنے والوں کو روکنے کے لیے عبداللہ بن مرثد ثقفی نے جا کر پل کے تختے توڑ دئیے