تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کیں ان کو ذوالکلاع رضی اللہ عنہ نے دمشق تک نہ پہنچنے دیا‘ کیونکہ وہ اسی غرض کے لیے دمشق و حمص کے درمیان مقیم تھے‘ جب چھ مہینے گذر گئے تو دمشق والے ہرقل کی امداد سے مایوس ہو گئے اور ان میں مقابلہ کرنے کا جوش کم ہونے لگا تو سیدنا ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے اس حالت سے بروقت مطلع ہو کر اور محاصرہ کو طول دینا مناسب نہ سمجھ کر ہر سمت کے سرداروں کو حکم دیا کہ کل شہر پر حملہ آوری شروع ہو گی۔ مسلمانوں کی اس جنگی تیاری اور حملہ آوری کا حال معلوم کر کے امراء دمشق کے ایک وفد نے باب تو ماکی جانب سے سیدنا خالد رضی اللہ عنہ کے پاس آ کر امان طلب کی‘ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے ان کو امان نامہ لکھ دیا اور بلا مقابلہ شہر کے اندر داخل ہوئے‘ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے جو امان نامہ دمشق والوں کو لکھ کر دیا اس کا مضمون اس طرح تھا۔ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے دمشق والوں کو یہ رعایتیں دی ہیں کہ جب اسلامی لشکر دمشق میں داخل ہو گا تو دمشق والوں کو امان دی جائے گی‘ ان کی جان و مال اور گرجوں پر کوئی تصرف نہ کیا جائے گا‘ نہ شہر دمشق کی شہر پناہ منہدم کی جائے گی‘ نہ کسی مکان کو مسمار و منہدم کیا جائے گا‘ اسلامی لشکر کا کوئی شخص شہر والوں کے کسی مکان میں سکونت اختیار نہ کرے گا‘ مسلمان اور ان کا خلیفہ بجز نیکی کے کوئی برا سلوک دمشق والوں سے نہ کریں گے جب تک کہ دمشق والے جزیہ ادا کرتے رہیں گے۔ ادھر خالد بن ولید رضی اللہ عنہ صلح نامہ کے ذریعہ شہر میں داخل ہوئے‘ ٹھیک اسی وقت باقی ہرسہ جوانب سے اسلامی سردار سیڑھیاں لگا لگا کر اور دروازے توڑ توڑ کر قہر و غلبہ کے ساتھ شہر میں داخل ہوئے‘ وسط شہر میں سیدنا خالد رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کی ملاقات ہوئی‘ سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم نے شہر کو بزور شمشیر فتح کیا ہے‘ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے بمصالحت شہر پر قبضہ کیا ہے‘ بعض روایات کی رو سے معلوم ہوتا ہے کہ بطریق ماہان نے خود امراء دمشق کو بھیج کر خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے عہد نامہ لکھوایا تھا‘ دراصل وہ مسلمانوں کے حملہ کی طاقت اور نتیجہ کو دیکھنا چاہتا تھا کہ اگر مسلمان اپنے متفقہ حملے اور پوری کوشش میں ناکام رہے اور بزور شمشیر دمشق میں داخل نہ ہو سکے تو آئندہ بھی مدافعت کو جاری رکھا جائے گا اور خالد رضی اللہ عنہ کے عہد نامہ کو کوئی وقعت نہ دی جائے گی‘ لیکن اگر مسلمان اپنی اس کوشش میں کامیاب ہو گئے اور زبردستی شہر میں داخل ہوئے تو اس عہد نامہ کے ذریعے اس برتائو سے محفوظ رہیں گے جو بزور شمشیر فتح کئے ہوئے شہر کے ساتھ آئین جنگ کے موافق کیا جاتا ہے۔ ادھر ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ بزور شمشیر شہر میں داخل ہوئے اور ادھر دمشق والوں نے خود دروازہ کھول کر خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو شہر کے اندر بلا لیا‘ بہرحال کوئی بات ہوئی‘ یہ ضرور ہوا کہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ بذریعہ مصالحت داخل دمشق ہوئے اور ابوعبیدہ بن جراح بزور شمشیر۔ وسط شہر میں جب دونوں سردار ملاقاتی ہوئے تو یہ مسئلہ در پیش ہوا کہ دمشق بزور شمشیر مفتوح سمجھا جائے یا بمصالحت‘ بعض شخصوں نے کہا کہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ چونکہ افواج اسلامی کے سپہ سالار اعظم نہ تھے‘ لہذا ان کا عہد نامہ جائز نہیں سمجھا جائے گا‘ ایسا عہد نامہ صرف ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ لکھ سکتے تھے‘ سیدنا